پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق کیوبا میں میں 4000 مسلمان آباد ہیں جو کل آبادی کا 0.1 فیصد ہیں۔[1] کیوبا کے عظیم الشان اسکولوں میں کئی مسلمان بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ان مسلمان بچوں کی تعدا تقریبا 1500-2000 ہے۔ ان بچون میں زیادہ کا تعلق پاکستان سے تھا اور باقیوں کا دیگر ممالک سے تھا۔ ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے جن کی تعداد تقریبا 900 ہے۔2001 میں عالمی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری شیخ بن ناصر الابودی کیوبا پہنچے اور وہاں کی حکومت سے مسلم کمیونٹی کے لیے اسلامی تنظیم کے قیام کا مطالبہ کیا اور ان تنظیمات کا مقصد مساجد تعمیر کرنا اور مسلمانوں کو اسلام کی جانب راغب کرنا ہے۔[2]

اہم نقطہ

ترمیم

کیوبا کے مسلمان مشرق وسطی کے ممالک کے سفارت کاروں اور مسلمان طالب علموں سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ اسلام 1970 اور 1980 کی دہائی میں کیوبا میں پھیلا۔ کیوبا میں مسلمانوں کا کوئی الیکٹرانک اور پریس میڈیا موجود نہیں ہے مسلمانوں کے لیے سہولیات بہت کم ہیں۔ ہسپانوی ترجمہ کے قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب بہت کم دستیاب ہیں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے بہت کم مذہبی رہنما ہیں۔[3]

عربوں کے گھر

ترمیم

یوبا میں مسلمان گھروں میں نماز ادا کرتے ہیں کیونکہ وہاں کوئی مسجد موجود نہیں ہے ملک میں مساجد کی تعمیر پر پابندی ہے انسانی امداد (İHH) فاؤنڈیشن جس نے کیوبا کا دورہ کیا تھا کے ارکان کے مطابق سابق صدر فدیل کاسترو نے اپنے ملک کے مسلمانوں کے لیے ایک مسجد کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا [4] تاہم مسلمان ہوانا میں نماز جمعہ ایک جگہ اکٹھے ہو کر ادا کرتے ہیں جسے کاس ڈی لوس عریبز (Casa de los (Árabes جس کا مطلب عربوں کے گھر ہے۔ عرب ہاؤس کا تعلق ایک امیر عرب تارکین سے تھا جو 1940 میں کیوبا میں رہتا تھا یہ گھر اندلسی طرز کا بنا ہوا ہے اس میں ایک عربی میوزیم، عربی ریسٹورینٹ بھی ہے یہ مسلم سفارت کاروں کے زیر استعمال ہے یہاں نماز جمعہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قطر نے اس کو بہتر بنانے کے لیے 40،000 امریکی ڈالر عطیہ کیے ہیں۔ یہ صرف جمعہ کے موقع پر عام مسلمانوں کے لیے کھولا جاتا ہے اس کے علاوہ عام کیوبن مسلمان اس میں موجود سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں اس سے صرف غیر ملکی مسلم سیاح اور مسلم سفارت کار استفادہ کر سکتے ہیں۔[2]

مسلم گروہ

ترمیم

کیوبا میں دو اسلامی گروہ ہیں:پہلاکیوبن اسلامی یونین جس کے صدر امام یحیی پیڈرو،اور دوسرا ہوانا میں اسلامی ایسوسی ایشن آف کیوبا ہے۔[5]

قابل ذکر مسلمان

ترمیم
  • علی نکولس کوسیلو - سابق وزارت خارجہ کے اہلکار تھے جو اب "اسلام کی آواز"(ایک ریڈیو اسٹیشن) کے لیے رپورٹر ہیں،[6]
  • کارلوس گومز - پروفیشنل باکسر اور سابق کروزرویٹ چیمپیئن

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 19 مئی 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2013 
  2. ^ ا ب http://www.islamawareness.net/LatinAmerica/cuba.html
  3. http://www.worldbulletin.net/news_detail.php?id=28195
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 17 مئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2013 
  5. "Muslim Organizations in Latin America"۔ 03 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مارچ 2013 
  6. http://www.islamawareness.net/LatinAmerica/latino_news006.html