گریفتھ کا تجربہ
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
گریفتھ کے تجربے سے مراد وہ تجربہ ہے جسے Frederick Griffith نے 1928 میں بیان کیا تھا۔ یہ پہلا تجربہ تھا جس سے ثابت ہوا تھا کہ جراثیم (bacteria) اپنی خاصیت تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ جو جراثیم جیسا ہے ہمیشہ ویسا ہی رہے گا۔ اس تجربے نے پہلی دفعہ یہ نظریہ پیش کیا کہ جینیاتی خواص ڈی این اے پر درج ہوتے ہیں جو بعد میں Avery–MacLeod–McCarty experiment کی مدد سے 1943 میں ثابت ہو گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اسپینش انفلوئنزا کی وبا پھیلی تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق دس کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے تھے جو دنیا کی آبادی کا لگ بھگ 4 فیصد تھے۔گریفتھ اسٹریپٹو کوکس نمونی (Streptococcus pneumoniae) نامی جراثیم پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے دریافت کیا کہ
- جب اس جراثیم کی زندہ لیکن بے ضرر قسم چوہے میں بذریعہ انجکشن داخل کی جاتی ہے تو چوہا نہیں مرتا۔
- جب اس جراثیم کی زندہ لیکن ضرر رساں قسم چوہے میں بذریعہ انجکشن داخل کی جاتی ہے تو چوہا مر جاتا ہے۔
- جب اس جراثیم کی مردہ ضرر رساں قسم چوہے میں بذریعہ انجکشن داخل کی جاتی ہے تو چوہا نہیں مرتا۔(جراثیموں کو ابال کر مارا گیا تھا)
- جب اس جراثیم کی مردہ ضرر رساں قسم اور زندہ بے ضرر قسم دونوں چوہے میں بذریعہ انجکشن داخل کی جاتی ہیں تو چوہا مر جاتا ہے۔
یہ بالکل ایسا تھا جیسے کوئی نہتا بے ضرر شہری کسی مردہ سپاہی کی تلوار اٹھا کر اب خطرناک دشمن میں تبدیل ہو جائے۔
گریفتھ نے یہ بھی دیکھا کہ اُس نے اگرچہ مردہ ضرر رساں جراثیم اور زندہ بے ضرر جراثیم چوہے میں داخل کیے تھے لیکن مردہ چوہے کے خون میں زندہ ضرر رساں جراثیم موجود تھے۔ چونکہ مردہ زندہ نہیں ہو سکتا اس لیے گریفتھ نے یہ اندازہ لگایا کہ زندہ بے ضرر جراثیم نے مردہ جراثیم سے "transforming principle" حاصل کر کے اپنے آپ کو نئی اور ضرر رساں شکل میں ڈھال لیا۔ بعد میں ثابت ہوا کہ یہ "transforming principle" دراصل ڈی این اے ہوتا ہے۔
جراثیم کی اس ضرر رساں قسم میں جراثیم کے اوپر ایک پولی سیکرائیڈ کیپسول (خول) ہوتا ہے جو جراثیم کو چوہے کے مدافعتی نظام سے بچا کر رکھتا ہے۔ بے ضرر قسم میں یہ کیپسول نہیں ہوتا اور اس وجہ سے چوہا اپنے مدافعتی نظام کی مدد سے ان جراثیم کو با آسانی مار دیتا ہے۔
ابالنے سے پروٹین تو پروٹین ہی رہتا ہے مگر اس کی تہیں (foldings) اکثر ضایع ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے خواص کھو بیٹھتا ہے۔ اس کے برعکس ڈی این اے عام طور پر ابالنے سے نہیں بدلتا۔