گڑنگوبابا علیہ الرحمۃ
"""تعارف گڑنگوبابا""""
سنڈاکئ تختہ گڑنگ نامی علاقہ میں ایک صاحب کشف وکرامت بزرگ گزراہے جس کا اصل نام میاں خدابخش تھا۔ وہ قافلہ سیداحمدشھید وشاہ اسماعیل شھید میں مصطفی اباد رامپور اترپردیش ھندوستان سے ایاتھا(وقایع جلد3 ص578)
میاں خدابش رح نے راج دھارئ میں سیداحمدشھید کے ہاتھ بیعت کیاتھا۔ جب اس کانام مولانااسماعیل کے ساتھ لکھاگیا تو چھوٹے بھای میاں الھی بخش نے اسے فرمایا کہ حضرت زندگی اورموت اللہ کے اختیارمیں ہے تم اب سیدصاحب سے جداہونگے۔پہرپتہ نہیں کہ اللہ تعالی کب بلاے۔ توجیسے اوربھایوں نے اصحاب صفہ کی بیعت کی تم بھی کرلو۔ تم میاں خدابخش نے سیدصاحب کے ہاتھ بیعت کی
۔تفصیل دیکھیے تاریخ دعوت وعزیمت جلد2 ص414.415 وقایع احمدی جلد3 ص430
مولاناغلام رسول مہر رح نے سیدصاحب کے ساتھیوں کاجولسٹ لکھاہے اس میں 73..74 نمبر پریہ دونوں بھا ی ہے۔ دیکھیے۔تحریک سیداحمدجلد1 ص532
سانحہ بالاکوٹ میں سیداحمد اورشاہ اسماعیل رحمھماللہ کے شھادت کے بعد جوغازیان بچ گئے تھے وہ ناصرخان بٹگرامی اورصاحب ذادہ محمدنصیر کے دعوت پر بٹگرام نندھیاڑ اگیے۔ صاحب ذادہ نے ایک ترتیب بنایااور مجاھدین مختلف مقامات میں تقسیم کیے مثلا کوھانہ( کوانڑئ) چپرگرام ،سچ بہار( سجبیار الای) وغیرہ غازیوں کے خوراک کیلے لوگوں سے عشر وغیرہ کے جمع کرنے کاترتیب بنایاتھا۔ اس طریقہ پر نو یادس مھینے مجاھدین نے بٹگرام میں گزاردیے۔ اس دورانیہ میاں خدابخش چپرگرام کے مقام پرتھا۔ وہاں کے خوانین سے شھزادہ خان کے ساتھ میاں خدابخش کاخاص تعلق قایم ہواتھا۔ پہر جب لوگ مجاھدین کے خدمت سے تنگ ہوگیے اور مولاناغلام رسول مہر کے تحقیق وتفصیل کے مطابق علاقای لوگوں نے مجاھدین کے نکالنے اوران سے اسلحہ لینے کامشورہ اورفیصلہ کیا۔ تو شھزادہ خان نے چپکے سے میاں خدابخش کوخبردار کیا۔ اورکہاکہ چونکہ اپ میرادوست ہے ہم کئی مہینے یہاں اکٹھے رہے ایک ساتھ کھاناکھایاہے میں مناسب نہیں سمجھتاہو کہ اپ کابے عزتی وبے حرمتی ہوجاے۔ لہذا اپ اپنے بھای سمیت یہاں سے چپکے چپکے نکلو۔ میاں خدابخش نے مناسب نہ سمجھا کہ بھای ساتھ لے کے چلے اور دوسرے ساتھیوں کو متنبہ نہ کرے۔ توانہوں نے صاحبزادہ محمدنصیر کوراز فاش کیا
دیکھیے تفصیل سرگزشت مجاھدین جلد4 ص64 لمولاناغلام رسول مہر
اس کے بعد یہاں سے مجاھدین کاجماعت منتشرہوا کچھ پنجتار کے طرف روانہ ہوئے اور کچھ اس طرف گئے واپس وطن کو حتی کہ ٹانگ پہنچ گئے وہاں کچھ قیام کیا۔ میاں خدابخش اپنے بھای میاں الھی بخش سمیت اس قافلے سے یہاں رہ گئے۔جالا کے ذریعے اباسین عبور کرکے سنڈاکئ ایے تھے۔ پہلاقیام سرکول شانگلہ میں اختیارکیاتھا۔ میاں الھی بخش سرکول میں وفات ہواتھا۔سرکول قدیم قبرستان میں مدفون ہے۔ بزرگوں کاکہناہے کہ میاں خدابخش اپنے کچھ معمولات اورچلہ کیلے گڑنگ نامی پہاڑی پرجاتے جو ایک خلوت کامقام تھا۔میاں الھی بخش بھی ساتھ لے جاتے جب تک وہ زندہ تھا۔ بھای کے وفات کے بعد مستقل گڑنگ میں سکونت اختیار کیا زاھدانہ زندگی گزارتے تھے۔بزرگوں کاکہناہے کہ کروڑہ شانگلہ کے سیدخاندان سے شادی کیاتھا۔ اس سے میاں خدابخش کے تین بیٹے تھے۔ میاں رحیم بخش 2 میاں سلطان شاہ 3 میاں اکبرشاہ۔ ان تینون سے اس کانسل پھیلا
میاں خدابخش رح بخاری سید تھا یہاں گڑنگ میں سکونت اختیارکرنے کی وجہ سے گڑنگوبابا کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کے اولادواحفاء کوگڑنگیان کہاجاتاہے۔ جو اصل میں اس جگہ کونسبت ہے۔ گڑنگوباباکے اولاد یہاں ذاتی جایداد نہ ہونے کی وجہ سے کچھ بٹگرام مانسہرہ مردان صوابئ بونیر کراچی سوات وغیرہ میں جاکے اباد ہوئے اور کچھ یہاں گڑنگ پیزہ باملئ گھڑئ مسلم آباد کوزباٹکوٹ وغیرہ میں آباد ہے۔ گڑنگوبابا کے ساتھ لوگوں کابہت عقیدت تھا۔ وہ ایک خاکسار زاھد بندہ تھا۔انھوں نے یہاں پراپناسرگزشت اورتفاصیل عام طور بیان نہیں کیے تھے۔ بزرگوں کاکہناہے کہ گڑنگوں بابا سے اگرکوی پوچھتاکہ آپ کون ہے کہاں سے ایے ہو؟؟؟؟؟ تو وہ جواب میں فرماتے ٫٫٫ میں بس ایک خاک ہو اللہ نے بقایاروزی یہاں مقررکیاہوگا؛؛؛؛؛؛ باباجی کا عام طور اپنا خاندانی نسبت نہ بتانا۔اس قافلے کاسرگزشت نہ بتانا۔ وطن اصلی کوظاھرنہ کرنا دو وجوہ سے تھا۔یا اس وجہ سے کہ مخالفت کادورتھا یااس وجہ سے کہ یہاں شخصیت پرستی شرک پرستی رایج تھی۔ سیداحمد شھید شاہ اسماعیل شھید اوران کے رفقا اس کے سخت مخالف تھے۔ اس لیے اپناسرگزشت بیان نہی فرمایا۔ گڑنگوبابا کے وفات کے بعد لوگ ان کے زیارت کوجاتے۔ جو گڑنگوزیارت کے نام پہ مشہور ہے۔ لوگ اپنے حاجات میں جیساکہ زمانہ قریب تک پیربابا یالوی زوان کے نام پکارتے۔۔پیرہ بابا پہ نیکئ راورسی۔ لویہ زوانہ پہ نیکئ راورسی۔اسی طرح یہاں لوگ گڑنگوبابا کے نام صدا لگاتے تھے٫٫٫ دگڑنگوبابا پہ نیکی راورسی؛؛؛ گڑنگوبابا کے نام پر زمانہ قریب تک لوگ سفید مرغ کانذر پیش کرتے تھے۔ الحمد للہ پہرقران وسنت کی تعلیمات پر لوگ غیر شرعی امور سے باز آگیے۔ میاں خدابخش عرف گڑنگوبابا کے تذکرے درج ذیل کتب میں ہیں۔۔منظورۃ السعداء فی احوال
الغزاۃ والشھداء۔۔۔۔۔۔ وقایع احمدی۔۔۔۔۔تاریخ دعوت وعزیمت۔۔۔۔۔۔تحریک سیداحمدشھید۔۔۔۔۔۔جانثاران سیداحمدشھید وغیرہ
تحریر میاں کریم اللہ ربانی ایم اے اسلامیات یونیورسٹی اف سوات فاضل مدرسہ عربیہ مظھرالعلوم سوات ایس پی ایس ٹی وامام جامع مسجد مسلم آباد