اُنیسویں صدی کے آخر میں بہت سارے برٹش ایڈمنسٹریٹرز، جیوگرافرز اور ٻہت سے دیگر کئی سکالرز نے اس بات کی پہلی بار نشاندھی کی کہ راجستھان، چولستان (بہاولپور)، تھر (سندھ) اور کَچھ (گجرات) میں ایک بہت پرانے سوکھے ہوئے دریا کی مسلسل گزرگاہ (چینل) کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں۔ انھیں کالونئیل سکالرز میں جیمز ٹاڈ، میجر کالوین، سی۔ ایف۔اولڈہَم، میجر ایف۔ میکسن، ہنری جارج رَیورٹی اور سیو رائٹ کے نام نمایاں ہیں۔ اس سُوکھے ہوئے دریا کی گزرگاہ (چینل) کا اپ-سٹریم میں ہماچل پردیش سے نکلنے والے دریا گھگھر کے ساتھ تعلق جا بنتا تھا۔ بیکانیر، چولستان، تھر اور کَچھ میں اسے ہاکڑا کہا جاتا تھا۔  (ہسٹاریکل فیلالوجی یہ بتاتی ہے کہ لفظ ہاکڑہ "ساگرا" یا "ساگر" ہے، جیسے ہند اصل میں سندھ ہے) گھگھر ہاکڑا کی اس گزرگاہ (چینل) کے ساتھ چاروں طرف ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پرانی آبادیوں کے کھنڈر بکھرے پڑے ہیں۔ یہ گزرگاہ (چینل) جمنا کے مغربی اور ستلج کے مشرقی سمت درمیان میں واقع تھا۔ دوسرے لفظوں میں آج کل کے راجپوتانہ کے "گریٹر ڈیزرٹ" کا بڑا سارا علاقہ اس دریا کی طغیانی میں آ جاتا تھا۔

انھیں سکالرز کا خیال تھا کہ یہی چھوٹا اور موسمی دریا گھگھر ایک وقت میں رَن آف کَچھ تک بہتا تھا اور خود رَن (آف کَچھ) کے بنانے اور بڑھانے میں اس کے ڈیلٹا کا ہاتھ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وادی سندھ کی قدیم شہری تہذیب کی دریافت /جان پہچان نہیں ہوئی تھی، نہ یہ ہڑپہ، موہنجودڑو دریافت ہوئے تھے اور ٻہت سے اور کئی قدیم شہری مرکز بھی دریافت نہیں ہوئے تھے۔ انھیں سکالرز کا خیال تھا کہ یہ دریا مغلیہ دور میں کسی وقت سُوکھ گیا تھا۔ کُچھ کا خیال تھا کہ یہ آٹھویں صدی کے لگ بھگ بہنا بند ہو گیا تھا۔

انھیں ایڈمنسٹریٹرز اور جیوگرافرز کے ساتھ ساتھ اس وقت بہت سے "انڈولوجسٹ" سنسکرت لٹریچر کے مطالعے میں مصروف تھے۔ انھیں میں ویلیم جونز، کول بروک اور میکس ملر جیسے سکالرز شامل تھے۔ ان کو رِگ وید، مہابھارت اور بہت سے پُرانوں کے مطالعے میں یہ جانکاری ہوئی، کیونکہ سندھو کے ساتھ ساتھ ایک اور دریا کے بہت سے حوالے موجود ہیں جن میں اسے "سرسوتی" کہا جاتا تھا۔ سنسکرت لٹریچر میں یہ ایک بہت مقدس دریا تھا اور اس کو "شبد اور حُسن" کی دیوی کا درجہ ملا ہوا تھا۔ اس لٹریچر میں یہ بھی حوالہ تھا کہ ایک خاص وقت میں یہ دریا سرسوتی زمین کے اندر چلا گیا اور اب بھی الہ آباد کے نزدیک جہاں گنگا جمنا کا ملاپ ہوتا تھا، یہاں سرسوتی ندی زیرِ زمیں بہتی ہوئی ان کے ساتھ جا ملتی ہے۔ اس جگہ کو ہندو مقدس کتابوں میں "تریونی سنگم" کا نام دیا جاتا ہے۔

رِگ وید میں سرسوتی بارے لکھا ہوا ہے کہ یہ جمنا اور شُتُدر (ستلج) کے درمیان بہتی ہوئی ساگر کے ساتھ جا ملتی ہے۔ انھیں حوالوں کی بنیاد پر انھیں سنسکرت سکالرز نے یہ نتیجہ نکالا کہ "سرسوتی" اصل میں یہی گھگھر / ہاکڑا دریا تھا جس کا سُوکھی ہوئی گزرگاہ (چینل) کا نشان ابھی بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ بہت سے کھنڈر اور ٹیلوں کے نشان موجود ہیں۔ اس کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندھی ہوئی کہ آج کے گھگھر کا ایک مشرقی بازو برساتی ندی نالے (نائیں) کا ابھی بھی نام سرسوتی ہے جو اس پرانی "ویدک دور" کی سرسوتی کی یاد ہے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ برٹش سکالرز یہ سمجھتے تھے کی سندھ ہند میں تہذیب کا آغاز سنٹرل ایشیا سے آریا کی ہجرت (مائیگریشن) اور "ویدک دور" سے ہوتا تھا جو ان کے حساب میں 3500 سال پہلے کا دور تھا۔ بیسویں صدی کے شروع میں جب پہلے ہڑپہ اور بعد میں موہنجودڑو کے قدیمی شہر دریافت ہوئے تو سندھ ہند کی تہذیب (زمانی اعتبار سے اپنی قدامت میں) پورے ایک ہزار سال پیچھے چلی گئی۔ اس دریافت سے سندھ ہند بارے پوری کالونئیل ہسٹاریوگرافی کے کئی مفروضے تبدیل کرنے پڑ گئے۔

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں مشہور آرکیالوجسٹ آرل سٹائن نے بیکانیر اور بہاولپور میں کئی آرکیالوجیکل مشن بھیجے اور ان کے اندر جہاں انھوں نے اس ہاکڑا دریا کی گزرگاہ (چینل) کے ساتھ کئی نئے ٹیلے اور کھنڈر دریافت کیے، وہاں اس نے یہ بھی اشارہ دیا کہ یہ سارے ٹیلے اور کھنڈر قدیم وادی سندھ کے ساتھ جُڑے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ بیکانیر میں اس نے دیکھا کہ سُوکھے ہوئے ہاکڑا کی 160 کلومیٹر سے زیادہ گزرگاہ (چینل) کا نشان موجود ہے اور اس کی اوسط چوڑائی 3 کلومیڑ سے بھی زیادہ ہے اور کہیں کہیں یہ چوڑائی 6 کلومیٹر سے بھی بڑھ جاتی ہے۔

آرل سٹائن بیکانیر سے بہاولپور آیا تو اس نے مشرق میں فورٹ عباس اور مروٹ سے مغرب میں قلعہ دیراوڑ تک آپنی تلاش جاری رکھی۔ یہاں ان کو موہنجودڑو اور ہڑپہ سے دریافت ہونے والی مُہریں جیسے نمونے ملے، اس کو اس وقت کے کئی برتن اور ٹھیکریاں ملیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے پہلی دفعہ رحیم یار خان کے ساتھ پتن منارہ دیکھا اور کہا کہ یہ ہاکڑہ کا ایک پتن تھا جہاں سے کشتیاں (بیڑیاں) ایک کنارے سے دوسرے کنارے جاتی تھیں۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے بعد کچھ مدت کے لیے دریافت کا یہ کام رُک گیا۔ 1950 کی دہائی میں انڈیا آرکیالوجیکل سروے نے انڈین پرائم منسٹر جواہر لال نہرو کو مشورہ دیا کہ وادی سندھ کی بہت سے تاریخی مقامات sites پاکستان میں رہ گئی ہیں۔ اس لیے یہ لازمی ہے کہ انڈیا میں ہریانہ، راجستھان اور گجرات کے علاقوں میں وادی سندھ کی تہذیب کے نئے تاریخی مقامات sites تلاش کی جائیں۔ جواہر لال نہرو نے اس مشورے سے اتفاق کیا۔ جب یہ آرکیالوجیکل سروے شروع ہوا تو بہت تھوڑی مدت کے بعد یہ بات ظاہر ہوئی کہ سب سے بڑھ کر آرکیالوجیکل سائٹس پرانے گھگھر ہاکڑے کی گزرگاہ (چینل) کے راستے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ اس کام میں اَمل آنندا گھوش اور بھن سوراج دو آرکیالوجسٹ نے بڑا کام کیا۔

ان نئے دریافت شدہ تاریخی مقامات sites میں رَکھی گڑھی، سسوال، متاتھل اور بالو سب سے اہم سمجھی جاتی ہیں۔ آگے چل کر ڈھولا ویرا اور گجرات میں کئی اور تاریخی مقامات sites بھی دریافت ہوئیں۔ جب کہ راجستھان میں کالی بھنگن پہلے ہی دریافت ہو چکی تھی۔

پاکستان میں آرکیالوجسٹ رفیق مغل نے ستر کی دہائی میں چولستان میں تلاش کا کام کیا۔ اس کام میں انھیں حیرت ہی حیرت ملی۔ کُل ملا کر چولستان میں 363 سے بڑھ کر ہڑپہ سے پہلے اور ہڑپہ دَور کے تاریخی مقامات sites ملے جس میں گنیریوالہ جیسا بڑا شہر بھی شامل ہے جو موہنجودڑو، ہڑپہ اور ڈھولا ویرا کا ہمعصر ہے۔

نوے کی دہائی میں آ کے سیٹلائٹ امیجری، جیو فزکس، جیالوجی اور انڈر گراؤنڈ واٹر ٹیسٹنگ جیسی سائنسی ٹیکنیکس اور کاربن ڈیٹنگ کے میتھڈ کو ملا کر گھگھر ہاکڑا دریا اور اس کی تہذیب کے بارے میں بہت کچھ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے۔ سیٹلائٹ امیجریز سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایک لمبا چوڑا سُوکھا ہوا بیڈ bed گھگھر سے لے کر، بیکانیر سے بہتا ہوا، چولستان سے گُذرتا ہوا، تھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ تھر سے کھپرو کے مقام سے یہ اسلام کوٹ کے مشرقی طرف سے ہوتا ہوا رَن آف کچھ میں جا گرتا ہے۔ اس کے کئی چھوٹے بڑے ساتھی ندی نالوں کی گزرگاہیں اور بھی ہیں۔ ایسے ہی روپر سے ستلج کی ایک سُوکھی ہوئی گزرگاہ (چینل) اِس کے ساتھ آ ملتی ہے جس کے بارے میں اس بات کا گمان ہے کہ کبھی ستلج بھی اس کے اندر مل کے بہتا تھا۔

جیوفزکس، جیو کیمسٹری اور جیالوجی کی ریسرچز بتاتی ہیں کہ گھگھر ہاکڑے کی اس گزرگاہ (چینل ) میں ایسا میٹریل (راکھ کے رنگ جیسی ریت) ملتی ہے جو "گریٹر ہمالیہ" سے پانیوں کے ساتھ بہہ کر یہاں پر آ موجود ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نو ہزار سال پہلے یہ گھگھر ہاکڑہ ہمالیہ کے گلیشئرز سے پانی لیتا تھا۔ ایسے ہی بھورے پیلے رنگ کی ریت اور پھر بھورے رنگ کی مٹی اس کے الگ الگ سورسز اور پیریڈز periods کا پتا دیتی ہے۔

ایسے ہی 1980 میں ایک جرمن مشن نے چولستان کی پاتال میں بہتے زیرِ زمین پانی کا تفصیلی آئیسوٹاپ سروے کیا تو اس سے تصدیق ہوئی کہ یہ میٹھا دریائی پانی ہے جو ہزاروں سالوں سے رِستا رِستا سینکڑوں میٹر  پاتال میں پہنچ گیا۔

ان ریسرچز سے کچھ باتیں جو نکھر کر سامنے آتی ہیں، وہ یہ ہیں۔

نو ہزار سال پہلے یہ گھگھر ہاکڑا دریا گریٹر ہمالیہ سے رَن آف کچھ تک ایک الگ دریائی سسٹم کی طرح بہتا تھا۔ ساڑھے چار ہزار سال کے قریب جب کہ میگھالیا پیریڈ کے تحت مون سون سسٹم کمزور ہوا اور اس کا واٹر شیڈ ایریا کم ہو گیا۔ اس وقت روپر کے نزدیک ستلج نے اپنی گزرگاہ بدلی اور وہ اس کے اندر بہنا شروع ہو گیا۔ گھگھر، اپنے ساتھی دریا اور ستلج سے مل کے بہت مدت تک بہتا رہا۔ پھر جب ستلج نے ایک بار اپنی گزرگاہ بدلی اور موجودہ گزرگاہ (چینل) میں بہنا شروع ہو گیا تو یہ دریا ہریانہ تک ایک موسمی دریا بن گیا۔

نئے آرکیالوجیکل سروے کے ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ گھگھر ہاکڑہ۔سرسوتی دریا کی گزرگاہ میں ہند-سندھ کی قدیم تہذیب کی سب سے بڑے تاریخی مقامات sites تھے۔ اگر گھگھر ہاکڑہ کے واہݨ (چینل) پر گجرات کے تاریخی sites کو اکٹھا کیا جائے تو یہ کُل "آرکیالوجیکل سائٹس" کا 60 فیصد بنتے ہیں۔ اس واسطے ٻہت سارے سکالرز یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قدیم تہذیب کا نام "سندھ سرسوتی تہذیب" ہونا چاہیے۔

آخری اور اہم بات:

گھگھر ہاکڑے کے ساتھ جو ہوا، وہی یہاں کی آبادی کے ساتھ ہوا۔ گھگھر ہاکڑے کی گزرگاہ (چینل) کیا سُوکھی، پوری آبادی ویران ٹیلے اور کھنڈر بن گئی۔ کل کی بات کل کے ساتھ ہے، آج کی بات یہ ہے کہ ستلج، بیاس اور راوی کے سوکھنے سے اس آبادی کا کیا بنے گا؟ ہو سکتا ہے کچھ مدت کے لیے وادی سندھ اس خسارے کو برداشت کر لے۔ پھر آخرکار (انت میں) انھیں دریاوؤں کے سُوکھنے سے آج کی تہذیب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گی اور اس کا عذاب اگلی کئی صدیوں تک یہاں کے لوگوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔