"ہردے(Harday)" کچھ لوگوں کے لیے ایک نیا نام ہو گا۔ اس نام کی ابتدا حضرت بابا فریدالدین شکر گنج بخش کے زمانہ سے ہوئی۔ بابا جی اس وقت کے بہت بڑے ولی تهے۔ آپ نے بہت سارے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور لوگوں نے آپ کے ہاتھ پہ اسلام قبول کیا۔ انھیں دنوں کی بات ہے کہ آپ نے اسلام کی دعوت "سیال" قوم تک پہنچائ تو سیالوں نے اسلام کی دعوت قبول کر لی اور آپ کے ہاتھ پہ "بیعت" کر لی۔ سیال کو ایک قبیلے کے طور پر بهی لکها جا سکتا ہے۔ اس قبیلے کی بنیادی دو قسمیں ہیں۔ 1) کوہڑی 2)بهرمی مطلب آپ سیالوں کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے هیں۔ اب دونوں کی مزید آگے اقسام هیں۔.. مشہور ہے جس قوم کے آخر میں آنہ آ جائے وہ سیال قبیلے سے تعلق رکهتے هیں۔ جیسے لکهنانہ،چڑیانہ،جمیانہ،ڈهڈیانہ۔ بهروانہ وغیرہ یہ تمام سیال قبیلے سے تعلق رکهتے ہیں۔ خیر هم ہردے کی طرف آتے ہیں۔ بابا فرید کے دور میں لکهنانہ سیال کے ابآءواجداد نے بهی آپ کے ہاته پہ اسلام کی دعوت قبول کی اور آپ کے مرید ہو گئے۔ لکهنانوں میں سے ایک شادی شدہ جوڑے کے هاں اولاد کا مسئلہ بنا۔ مسئلہ یہ بنا کہ جو بهی بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا اس کی افزائش نہ ہوتی اور وہ بچہ فوت ہو جاتا۔. بچے کے اس طرح سے فوت ہونے کے عمل کو سیالوں کی زبان میں بچے کا سُوک جانا(سُک۔ جانا) کہتے هیں۔ جب یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو یہ شادی شدہ جوڑہ دعا کے لیے ایک اور درویش بابا تاج دین شاہ اٹهارہ ہزاری والے کے پاس پہنچا۔ آپ نے جوڑے کو دلاسہ دیا اور کہا کہ میں آپ کے لیے دعا کروں گا اور قوی امید ہے کہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا مگر میری ایک شرط ہے کہ آپ کو بابا فرید کی بیعت کو توڑ کر میری بیعت کرنا پڑے گی(کہ جوعمل کرنا ہے اُس کے لیے آپ کو میری بیعت کرنا پڑے گی) . جوڑے نے بابافرید کی اجازت سے بابا تاج دین کی بیعت کر لی۔ تو بابا تاج دین نے رب سے دعا کی کہ اے رب اب انهیں ہرا کر دے۔.. (یااللہ ہرا دے)....آپ کی دعا سے جوڑے کو عافیت ہوئی۔ اور اب کی بار بچہ صحیح سلامت پیدا ہوا۔ ماں باپ نے پهر خوشی میں آ کے اس بچے کا نام اپنے پیر کی دعا پہ "ہرادے" رکھ دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس لفظ کی ادائیگی میں تہوڑا سا فرق آیا اور "ہرادے" کی بجائے "ہردے" کہا اور لکها جانے لگا۔ ہردے کی شادی ک بعد اس کے چار بچے پیدا ہوئے۔...آج لکهنانہ خاندان کے وہ افراد جو ہردے کی اولاد میں آ رہے ہیں ان کو لوگ اسی مناسبت سے ہردے کہتےهیں۔ نوٹ: ہردے اور سیالوں کا شجرہ بابا فریدالدین شکرگنج کے دربار پہ موجود ہے۔ تحریر: حافظ نوید احمد ہردے