ہندوستان کمرشل بینک
کمرشل بینک آف ہندوستان 1805ء میں گوبند رام بلڈنگ میں قائم کیا گیا تھا۔ گوبند رام اسی عمارت کے گروانڈ فلور پر دکان کرتا تھا۔ یہ کاروباری طور پر اچاڑ، چٹنی اور شربت فروخت کیا کرتا تھا اور اپنی اسی مصنوعات کی بنا پر علاقے میں کافی مشہور تھا اور علاقے کا بہت امیر اور قابل عزت فرد سمجھا تھا۔ تقسیم ہندوستان کے وقت باقی علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ گوبندرام نے اپنا قیمتی سامان اور مال و دولت اسی بلڈنگ کے بیسمنٹ میں دفن کیا اور خود اپنے خاندان کو لے کر ہندوستان چلا گیا۔ حالات ٹھیک ہونے پر گوبندرام ہندوستانی اور پاکستانی افواج کے ذمہ داران کو لے کر واپس آیا اور یہاں دفن رقم نکال لی۔
کمرشل بینک آف ہندوستان نے 1805 میں اپنی پانچ شاخیں کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس میں سے پہلی برانچ امرتسر میں کھولی گئی تھی۔ جبکہ بنگال میں 1809 میں اس بینک کی ایک برانچ کھولی گئی۔ لاہور میں دو برانچیں کھولی جانی تھی جس میں سے ایک برانچ رنگ محل میں کھولی گئی تھی جبکہ دوسرے برانچ نیلے گنبد میں کھولی جانی تھی۔
اس بینک کے سامنے جو آج کی سونا مارکیٹ ہے، کسی وقت میں ہندوؤں کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں زیادہ دکانیں ہندوؤں کی تھی جو سونے کا کام کرتے تھے۔ ان لوگوں کے پاس بہت وزنی لوہے کی تجوریاں ہوا کرتی تھی، جنہیں دکانوں کے اندر ہی زمین میں نصب کیا جاتا تھا۔ ان کو اٹھانا درجن سے کم انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی اور یہ شہر کی محفوظ جگہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت کے ہندوؤں امانت اور دیانت میں مشہور تھے اور لوگ اپنے قیمتی سامان ان تجوریوں میں رکھواتے تھے۔ جن کی حفاظت کے لیے ماہانہ بنیادوں پر تھوڑی سی رقم وصول کی جاتی تھی۔ یوں امانت رکھوانے کا یہ کاروبار سونا مارکیٹ میں عام تھا۔ اس سلسلے میں اپنی تشہیر کے لیے باقاعدہ اشتہار بازی بھی ہوتی تھی۔ ہندو ان زیورات کو کمرشل بینک آف ہندوستان میں رکھوا کر اس پر سود کھاتے تھے جبکہ دوسری طرف ان زیورات کا اصل مالک زیور کی حفاظت کے بدلے ماہانہ بھی ادا کرتا تھا۔ جب مالک کو اپنی امانت درکار ہوتی تھی، دکان دار بینک سے واپس لے کر مالک کے سپرد کردیتا تھا۔ اسی طرح بہت سارے لوگ ان ہندوؤں کے پاس اپنی کیش رقم بھی بطور امانت رکھواتے تھے ان کے ساتھ زیورات والا معاملہ ہی کیا جاتا تھا۔ اس وقت کی سونا مارکیٹ کی پچھلی جانب ہندوؤں کے خاندان بھی آباد تھے۔