ہند آریائی اور ایرانی زبانیں

باہمی مشابہت قدیم ہند آریائی اور ایرانی میں اتنی نمایاں مشابہت ہے کہ دونوں کا آپس میں محض بولیوں کا تعلق ہے۔ ایران کی مذہبی زبان اوستا کا کوئی مصرع بھی حروف بحروف مشابہہ سنسکرت کے الفاظ میں آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، صرف چند حروف میں اختلاف نظر آتا ہے۔ مثلاً اوستا کا مندرجہ ذیل مصرع۔ ”یودوآپو ون دہیش یزئی تے أہ راینیش اہ رُہے ومشتابیوِزوتھرابیو سراشتیا بیوِ زوتھرابیواہمیَ تنوود۔ دَتَاتم د ستَ“۔ قدیم ہند آریائی میں مندرجہ شکل میں ہوگا۔ ”یودوآپو دسویشیجاتے اُسراء ینش اُسریسہ دشسٹھابھیو ہو تھرابیو شریشٹھابھیو ہوترا بھیو اسمئی رییش چ اسمئی تنود دُھروتاتمدتتھَ ۔ ’اُس شخص کو دولت۔ اُس شخص کو مستقل جسمانی طاقت دیجئیے جو نیک بخت بانیوں کی تنظیم کرتا ہے‘۔ اس مصرع میں زیادہ تر یہی فرق ہے کہ اوستاکی ’ہ‘ کے بل مقابل ہند آریائی میں دم کشیدہ حروف صیح ہیں۔ قدیم ہند آریائی اور قدیم ایرانی کی باہمی مشابہت کے نقطے مندرجہ ذیل ہیں۔

  • (1) قدیم ہند آریائی اور قدیم ایرانی کے مفرد حروف علت تقریباً ایک ہی ہیں۔ یعنی ’أ، آ، اِ، اُ، اُو‘۔* (2) قدیم ہند آریائی اور قدیم ایرانی میں حروف علت کا ’گُن‘ ہوجاتا ہے۔ ’اِ، ای‘ کا گُن ’اے‘ اور ’اُ، اُو‘ کا گُن ’او‘ ہے۔* (3) دونوں کے حروف علت میں بہت مطابقت ہے۔ مثلاً دونوں میں ’أ +أ‘ کا ’آ‘، ’اِ + اِ‘ کی ’ای‘، ’اُ + اُ‘ کا ’اُو‘ ہوجاتے ہیں۔* (4) دونوں غیر مصیبت حروف صیح ’ت پ چ‘ مشابہہ الفاظ میں مستعل ہوتے ہیں۔ مثلاََ
قدیم ہند آریائی ===== اوستا ========== معنی ===== ===== تاپِیَتِ ========== تاپَ یے اِتِ ===== گرم کرتا ہے ===== ===== چَرَتِ ========== چَرَ اِ تِ ======== چلتا ہے
ترمیم
  • (5) دونوں میں ہند یورپی ’اے، ای، اِ‘ سے پہلے حلقی حروف صیح حنکی بن گئے تھے۔ مثلاً
’بھج‘ (حصہ کرنا) ========== ’بزہ‘ (حصہ) ========== ’بیخ‘ (حصہ) ===== ===== ’اوجس‘ (طاقت) ========== ’اوجن ہ‘ (طاقت) ========== ’اواِز‘ (طاقت)
ترمیم
  • (6) دونوں زبانوں کی گردان میں کثیر التعداد تشکیلیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں میں تین تذکر و تانیث ہیں یعنی مذکر، مونث اور بے جنس۔ تین صیغے ہیں یعنی واحد، تثینہ اور جمع۔ دونوں کی ضمیر میں بڑی مشابہت ہے۔
  • (7) فعل کی گردان دونوں زبانوں میں ایک جیسی ہے۔ دونوں کے مصدر ایک رکنی ہیں اور ان کی تبدیلیوں میں بھی مشابہت ہے۔ فعل کے لاحقے ایک جیسے ہیں۔ ہاں تلفظ میں کہیں کہیں فرق ہے۔ مثلاً ان

زبانوں میں فعل حال واحد کے لاحقے قدیم ہند آریائی اور اوستا میں مندرجہ ذیل ہیں۔

=== قدیم ہند آریائی ====== اوستا ==== ===== متکلم ========== م ===== مِ ===== مخاطب ========= سِ =====ہ ===== غائب ========= تِ ===== تِ

  • دونوں کی اسمی گردان میں آٹھ لاحقے ہیں اور ان کے لاحقے بھی تقریباً وہی ہیں جیسے،
واحد حالت ظرفی ======== ’اے‘ ======== ’اے‘
ترمیم

===== واحد حالت اخراجی ======== ’اس‘ ======== ’ات‘ =====سنسکرت میں ’ات‘ اس وقت لگتا جب اصل لفظ کے آخر میں ’ا‘ ہو

جمع حالت فاعلی مفعول مقامی === ’سُ‘ ===== === ’س‘
ترمیم
	# دونوں میں ’ای، اوُ‘ کے بعد ’س‘ کی ’ش‘ ہوجاتی ہے۔ مثلاً
’مُشبٹِ‘ ========== ’مشتِ‘ ========= مٹھی
ترمیم

دونوں کے عدوی الفاظ میں زیادہ تر محض تلفظ کا فرق ہے۔ مثلاً

شَتَ ========== سَتَ ========== سو
ترمیم
اختلافات 

چونکہ زبانوں کی حقیقی تشکیل کا اندازہ تب لگایا جا سکتا ہے جب ان کے اختلافات بھ جتلائے جائیں۔ لہذا مندرجہ ذیل اختلافات قابل ذکر ہیں۔* (1) ہند یورپی کے لمبے دہرے ھروف علت قدیم ایرانی میں برقرار رہے، لیکن ہندآریائی میں وہ چھوٹے ہو گئے۔ مثلاً

قدیم ہند آریائی ==== ایرانی ========= اردو ===== ===== گَؤ ========== گاؤ ========== گائے ===== ===== نؤ ========== نااو ========== کشتی =

ترمیم

لہذا اس نقطہ نظر سے ایرانی میں یہ مظہر ہند آریائی سے زیادہ پرانا ہے۔

  • (2) قدیم ایرانی میں ہند یورپی کے چھوٹے دوہرے حروف علت دوہرے رہے، لیکن لیکن قدیم ہند آریائی میں وہ منفرد حروف بن گئے۔ مثلاً
اوستا ========== قدیم ہند آریائی ====== معنی ===== ===== اَاے تت ======== اے تت ========= یہ ===== ===== اَاوجو ========== اوجس ========== طاقت
ترمیم

لہذا اس نقطہ نظر سے ایرانی میں یہ مظہر ہند آریائی سے زیادہ پرانا ہے۔

  • (3) قدیم ایرانی میں ہند یورپی کے چھوٹے دوہرے حروف علت دوہرے رہے لیکن قدیم ہند آریائی میں وہ منفرد حروف علت بن گئے۔ * (4) قدیم ایرانی کی ایک نہایت قابل ذکر اور غیر معمولی خصوصیت ’اندراج‘ حروف علت میں تھی۔ یعنی جب کسی لفظ کے آخر میں ’اِ، اِی، اے، ی، ا، و‘ ہوتا تھا، تو گویا اس کی آمد کے انتظار میں پہلے ہی لفظ کے درمیان ایک زاید ’اِ یا اَ‘ کا آخری حروف کے مطابق اندراج ہوجاتا تھا۔ مثلاً

بَوَ ئی تِ (ہوتا ہے) ==== بھَوَت (وہ ہوتا ہے) ===== === ا اُنَ (وحشیانہ) ====== ارُنٹر (چمکیلا) ===

ترمیم

جیسا کہ اوپر کی مثال سے ظاہر ہے کہ ہند آریائی میں یہ مظہر مطلق نہیں تھا۔

  • (5) قدیم اوستا میں تمام ایک رکنی الفاظ کے آخر میں چھوٹے حروف علت لمبے کر دیے گئے تھے۔ لیکن ہند آریائی میں یہ پابندی نہیں تھی۔ مثلاً
اوستا ========= قدیم ہند آریائی === معنی ===== ===== زی ========== ہ ===== ==== کیوں کہ
ترمیم

===== نی ========== ن ========== نیچے =====* (6) قدیم ایرانی میں اگر کسی رکن کے ’ا یا آ‘ کے مابعد رکن میں کوئی حنکی حروف علت یعنی ’اِ، ای، اے یا ی‘ آتے وہ ’ا، آ یا اے میں تبدیل ہوجاتے تھے۔ مثلاً

ایے نی (پرستش) ===== یجنے (پرستش میں) ==

ترمیم

=== یے ہ یا (جس کا) ===== یسیہ (جس کا) ===== (7) کسی لاحقے ’م یا ن‘ سے پہلے اگر ’ا‘ ہو تو ’اِ‘ ہوجاتی ہے۔ مثلاً حروف صیح ’ی، چ یا ج‘ ہو مثلاً

اوستا ======== قدیم ہندآریائی ==== معنی ===== ===== یِم ========== یم ========== جس کو ===== ===== داچِم ======== داچم ========== آواز کو ===== ===== د۔ رُجِم ======= د۔ رُہم ========= دھوکے کو
ترمیم

قدیم ہند آریائی میں ایسا کوئی قائدنہیں تھا۔

  • مطابقت صرف اندونی ہے بیرونی نہیں ہے۔ یعنی مطابقت صرف حروف اور حروف کے ساتھ ہوتی ہے اور لفظ لفظ کے اکٹھے ہونے پر کوئی مطابقت نہیں ہوتی ہے۔ اوستا کے رسم الخط میں لفظ اور لفظ کے درمیان صرف ایک نقطہ لگایا جاتا تھا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ لفظ محض تحریری ہے۔ قدیم ہند آریائی میں یہ مطابقت اندرونی اور بیرونی دونوں قسم کی پائی جاتی ہے۔
  • (9) کوزی حروف صیح صرف ہندآریائی میں پائے گئے قدیم ایرانی میں نہیں۔ * (10) قدیم ایرانی میں ’ل‘ بالکل موجود نہیں ہے۔ قدیم ہند آریائی میں ’ر‘ اور ’ل‘ دونوں آوازیں پائی جاتی ہیں، اگرچہ رگ وید کے قدیم حصے میں ’ل‘ سے ’ر‘ کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ مثلاً
اوستا ========== قدیم ہند آریائی
ترمیم
  • = خ۔ ر۔ پَی۔ تی (ترتیب دیتا ہے) = کل پَ تے (تیار کرتا ہے) =====* (11) حنکی حروف کا سلسلہ قدیم ہند آریائی میں تو مکمل ہے، لیکن قدیم ایرانی میں غیر مکمل ہے، کیوں کہ اس میں صرف دو حنکی حروف ’چ‘ اور ’ج‘ پائے گئے۔ * (12) لفظ کی ابتدا اور درمیان میں قدیم ایرانی میں ہند یورپی ’س‘ کی ’ہ‘ بن گئی تھے اور لفظ کے آخر کا حروف حذف ہو گیا تھا۔ لیکن قدیم ہند آریائی میں صرف آخر میں ’س‘ کی ’ح‘ بنی تھی اور درمیان میں ’س‘ برقرار رہی۔
اوستا ========== قدیم ہند آریائی ==== معنی ===== ===== ہیت ========== سپتَ ========= سات ===== ===== اہی ========== اسی ========== تو ہے ===== ===== پتھُرو ========= پُترح ========== بیٹا
ترمیم
  • (13) قدیم ہند آریائی میں ہند یورپی دم کشیدہ مصیبت بندشی حروف صیح برقرار رہے اور قدیم ایرانی میں وہ غیر دم کشیدہ مصیت بندشی حروف صیح میں تبدیل ہو گئے۔ یعنی ’بھ، دھ، گھ‘ کی آوازیں ایرانی میں

’ب، گ، د‘ ہوگئیں۔ مثلاً

قدیم ہند آریائی ===== اوستا ========== معنی
ترمیم

===== ابھی ========== آئی بی ===== ==== کو ===== ===== ادھوانم ========= اِدوانم ========= راستے کو ===== ===== دِیرگھم ========= دَرگم ========== لمبے کو ===== (14) متعدد حروف صیح کے بعد قدیم ایرانی میں ’و‘ کی ’ب‘ یا ’پ‘ ہو گئی سنسکرت کی ’و‘ برقرار رہی۔ مثلاً اوستا قدیم ہند آریائی معنی ت ب اے شن ہا د وے ش سا نفرت سے ز ب یے می ہ وَ یامی (میں) بلاتا ہوں اسپو اُش وَ گھوڑا (15) قدیم ہند آریائی میں دم کشید حروف صیح کا استعمال ہوتا ہے، جس کے بالمقابل قدیم ایرانی میں رگڑلواکوحروف صیح میں مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً قدیم ہند آریائی اوستا معنی کچھتِ(چھ) جسی تِ (س) (وہ) جانتا ہے اِچھتِ(چھ) اسِیَ تِ (س) (وہ) چاہتا ہے کَھرَ (کھ) خَرَ(خ) گدھا ارتھَ (تھ) چیز اَرثَ(ث) حصہ کپھَ (پھ) بلغم گف (ف) جھاگ (16) قدیم ہند آریائی میں حروف صیح سے پہلے ’پ، ت، ک‘برقرار رہے، جب کہ اوستا میں وہ ’ف، ث، خ‘ میں تبدیل ہو گئے۔ مثلاً

قدیم ہند آریائی ========== اوستا ===== ===== معنی
ترمیم

===== ک رَ تُ خ ========== خ رش ========== دانائی =====

کشبترم ========== خشتھرم ========= حکومت ===== ===== پروکت (کہا گیا) ===== فرَختو ========== بولاگیا ===== ===== س وَیَن ========== ہ دَفنَ ========= خواب
ترمیم
  • (17) قدیم ہند آریائی میں ہند یورپی میں ’رات‘ میں برقرار رہی اور اوستامیں اس کی ’ش‘ ہو گئی۔ مثلاً
===== قدیم ہند آریائی ======= اوستا ========== 	معنی =====
* 		===== مرتییہ ========== 		مش یے ہے َ ======= نانی کا =====
* 	(18) قدیم ہند آریائی کے دندانی + دندانی کے بالمقابل میں ’س + ت‘ ہو گئی تھی۔ مثلاً 
اَمَ دت تَرَ======== اَمَ دسَتر ======== زیادہ طاقت ور
ترمیم

مندرجہ بالا سطور میں آریائی زبان کی بولیوں ہند آریائی اور ایرانی کے باہمی تعلقات کو جتلایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نہ صرف ہند آریائی اور ایرانی کی خاص نوعیتوں کو واضح طور پر بیان کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ ان دونوں زبانوں کا ارتقا ایسے عظیم انشان اور وسیع پیمانے پر ہوا، جو شاید ہی دنیاکی کسی اور زبان میں ہوا ہو۔ اس لیے اب دونوں پہلوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گئی۔ ارتقا اگرچہ آریائی زبان کی عہد حاضر کی تشکیلوں میں بے شمار اختلاف ہو گئے ہیں۔ تاہم دونوں شاخوں ہند آریائی اور ایرانی کے ارتقا کا بنیادی رجحان ایک ہی ہے۔ کیوں کہ دونوں میں نکات جو مشترک ہیں حسب ذیل ہیں۔

  • (1) دونوں پہلے مرکب زبانیں تھیں اب تحلیلی ہو گئی ہیں۔ مرکب طرز کلام میں ایک ہی لفظ کو سابقوں اور لاحقوں یا دیگر الفاظ کی مدد سے بڑھا کر رنگا رنگ معنی جتلائے جاتے ہیں۔ عہد حاضر کی آریائی زبان میں اس کی بجائے پھیر پھار کی طرز کلام زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ * (2) دونوں کی رف و نحو پہلے پیچیدہ تھی اب بہت سادہ ہو گئی ہے۔* (3) دونوں میں لفظ کے آخر رکنوں کا حذف ہو گیا ہے۔* (4) دونوں حروف کے اندورنی حروف صیح کمزور ہو گئے ہیں۔ اگرچہ عہد حاضر کی ہند آریائی زبانوں میں ایسے حروف بالکل حذف ہو گئے ہیں۔ لیکن عہد حاضر کی ایرانی میں وہ کمزور ہو گئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ برصغیر کے وسیع اور عریض رقبے اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں کی وجہ سے ہند آریائی میں کشمیری کی طرح رنگارنگ بولیاں نمودار ہوگیں ہیں اور جسپی میں تو اس انحراف کا عظیم انشان مظہر شاید ہی کسی اور زبان میں ہوا ہو۔ لہذا عہد حاضر کی ہند آریائی نے اب کچھ حد تک ایک بہت پیچیدہ صورت اختیار کرلی ہے۔ تاہم یہ فرق درجے کا ہے قسم کا نہیں۔

ماخذ سدھیشورورما، آریائی زبانیں