ہیئت پرستی (فلسفہ)
ہیئت کے لغوی معانی حالت، صورت اور ساخت کے ہیں۔ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ اور صاحبِ نور اللغات نے ہیئت کے مندرجہ ذیل معانی دیے ہیں:
- صورت، شکل، چہرہ مہرہ
- ڈول، ساخت، بناوٹ، دھج
- حال، حالت، کیفیت، ڈھنگ، طور، طریق
انگریزی ادبیات میں ہیئت کے لیے Form کا لفظ مستعمل ہے، یہاں یہ کہنا بے موقع نہیں ہے کہ انگریزی میں Form کا لفظ جہاں ہیئت کے لیے برتا جاتا ہے وہاں صنف کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، مغربی تنقید نگاروں کے ہاں یہ لفظ بالعموم اسی دوہری معنویت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ مروجہ اصطلاحی مفہوم کے اعتبار سے صنف اور ہیئت ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں، صنف کا تعلق کسی فن پارے کے مواد اور موضوع سے ہے جب کہ ہیئت کسی تخلیق کے ظاہری ڈھانچے اور صورت کا نام ہے۔ اردو ادب میں اگرچہ صنف اور ہیئت انہی مروجہ معنوں میں مستعمل ہیں تاہم بعض اوقات یہ اصطلاحیں یوں باہم آمیخت ہو جاتی ہیں کہ ان کی علاحدہ شناخت اور انفرادی حیثیت گم ہو جاتی ہے اور ہیئت صنف کے لیے اور صنف ہیئت کے لیے استعمال ہونے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر غزل بہ یک وقت صنف بھی ہے اور ہیئت بھی۔ کیوں کہ یہ دونوں حیثیتیں اس کے وجود میں ضم ہیں۔ لیکن جب مروجہ مفہوم کے مطابق ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ غزل صنف نہیں ہے کیوں کہ صنف کا تشخص مواد اور موضوع سے ہے، ابتدا میں جب غزل محض عشقیہ ماحول کی ترجمان تھی اُس وقت تک اسے صنف کہنے میں تأ مل نہیں ہو سکتا مگر اب جب کہ غزل کے دائرۂ موضوعات میں پوری انسانی زندگی اور اس کے میلانات و امکانات شامل ہو چکے ہیں، اس لیے اس کو کسی محدود دائرے میں مقید نہیں کیا جا سکتا، اس کے بر عکس غزل کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں اس کا ظاہری ڈھانچہ جلوہ گر ہونے لگتا ہے اور اس کے ہیئتی خد و خال (جیسے مطلع، مقطع، ردیف، قافیہ وغیرہ) ظاہر ہونے لگتے ہیں، اس اعتبار سے غزل کو ہیئت کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ [شمیم احمد نے غزل کو "ہیئتی صنف" قرار دیا ہے] اسی طرح مثنوی، رباعی، فرد، قطعہ وغیرہ اصنافِ سخن نہیں ہیں بلکہ شعری ہیئتیں ہیں۔ شعری اصناف میں حمد، نعت، قصیدہ، مرثیہ اور ہجو وغیرہ شامل ہیں کہ یہ کسی ہیئت میں بھی ہوں اپنا موضوعاتی دائرہ رکھتی ہیں اور اسی موضوعاتی دائرے کو اپنی شناخت کا ذریعہ بناتی ہیں، چوں کہ یہ کسی متعینہ ہیئت کی پابند نہیں، اس لیے ان کا نام لینے سے ان کے ڈھانچے کا تصور پیدا نہیں ہوتا۔ صنف اور ہیئت کے خلط ملط سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے متعلق شمیم احمد رقم طراز ہیں:
اس سے پیش تر کہ ہیئت کی اصطلاحی معنویت کا تعین کرتے ہوئے اس کے خد و خال کا جائزہ لیا جائے، مناسب ہو گا کہ Form کے لغوی معانی پر ایک نظر ڈالی جائے۔
ہیئت ایک ایسی کثیر المعنی اور ہشت پہلو ادبی اصطلاح ہے جس کے معنی و مفہوم کی واضح اور حتمی حدود مقرر نہیں کی جا سکتیں، ہیئت اپنے محدود اصطلاحی مفہوم کے مطابق ایک ایسا پیمانہ یا سانچا ہے جسے فن کار اپنے جذبات اور خیالات کی تشکیل کے لیے استعمال میں لاتا ہے، مگر وسیع تر مفہوم میں ہیئت، تکنیک اور اسلوب کو بھی محیط ہے۔ اہلِ علم کے ہاں ہیئت کے معنی، مفہوم اور اس کی حدود کے تعین میں اختلاف پایا جاتا ہے اور شاید اسی لیے محمد حسن عسکری نے ہیئت کو" فریبِ نظر" اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نے ہیئت کے مفہوم کو کثرتِ تعبیر کے باعث خوابِ پریشاں قرار دیا ہے۔ ذیل میں ہیئت کی چند ایسی تعریفیں پیش کی جاتی ہیں جو اس کے محدود اور وسیع اصطلاحی مفاہیم کی وضاحت اور اس کے خدوخال کی شناخت میں ایک حد تک ہماری معاونت کریں گی۔
"صورتِ ذہنیہ سے لے کر صورتِ نوعیہ جسمیہ تک جو کچھ ہے فارم ہے۔ اصل وہ جذباتی تحریک ہے جس نے ادیب یا شاعر کو کُچھ لکھنے پر مجبور کیا۔" -- (ڈاکٹر سید عبد اللہ)
ہیئت کی مندرجہ بالا معنوی توضیحات کے گہرے مطالعے سے اہلِ علم کے باہمی اختلاف کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، اس اختلاف کا بنیادی سبب ہیئت کی حدود کی عدم تعیین ہے۔ اہلِ علم نے ہیئت کے دائرے میں تکنیک، آہنگ، لفظیات اور دیگر محسناتِ کلام کو شامل کر کے اسے ایک پیچیدہ اور بہ قول K۔ P۔ Ker"خطر ناک حد تک ناقابلِ گرفت" اصطلاح بنا دیا ہے۔ اس میں کُچھ شبہ نہیں کہ تکنیک، آہنگ اور لفظیات وغیرہ ہیئت کے ساتھ ایک لطیف ربط رکھتے ہیں تاہم ان کی انفرادی حیثیت سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہیئت کی کوئی جامع تعریف نہیں کی جا سکتی۔
ہیئت کے لیے خیال (مواد) بنیادی توانائی کی حیثیت رکھتا ہے، جب فن کار کے ذہن میں ایک خیال جنم لیتا ہے تو وہ اس کا مؤثر اظہار چاہتا ہے، چوں کہ خیال ایک غیر مرئی داخلی جذبے کا نام ہے اس لیے اس کو اپنے اظہار کے لیے کسی مرئی اور خارجی پیکر کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا فن کار ایک ایسا سانچا تلاش کرتا ہے یا وضع کرتا ہے جو اس مقصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔ نتیجتاً ہیئت کی تخلیق ہوتی ہے گویا خیال کے لیے ہیئت ایک مرئی اور خارجی سانچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس طرح روح کسی جسم کی موجودگی کے بغیر اپنے اظہار سے قاصر ہے اسی طرح خیال اور جذبے کی نمود ہیئت کا ذریعہ اور واسطہ قبول کیے بغیر ناممکن ہے۔ روح اور جسم کے باہمی اشتراک سے زندگی کا ظہور ہوتا ہے اور خیال و ہیئت کی نامیاتی وحدت سے فن کی آفرینش ہوتی ہے۔ ہیئت کی تخلیق کے بارے میں ایک عام تصور تو یہ ہے کہ ہیئت تخلیق کا رکے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتی ہے اور وہ اس کا اظہار فن کی تخلیق کے ذریعے کرتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر تخلیقی تجربہ اپنے ساتھ ہیئت بھی لے کر آتا ہے یا پھر یہ کہ تخلیقی تجربے کی نمود کے ساتھ ہی ہیئت کی تعمیر و تشکیل شروع ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ فرماتے ہیں:
اس کے برعکس ایک دوسرا نقطۂ نظر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ہیئتیں معروضات میں موجود ہوتی ہیں اور تخلیق کا ر اپنی پسند یا ضرورت کے مطابق ان کا انتخاب کرتا ہے اور پھر انھیں آلائشوں اور غیر متعلق و غیر اہم عناصر سے پاک کر کے ایک ایسا وجود عطا کرتا ہے جو اپنے خطوط اور نقوش کی صفائی اور تازگی کے باعث دل پذیری اور رعنائی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ گویا فن کا ر پہلے سوچتا ہے اور پھر اظہار کے لیے مخصوص ہیئت تلاش کرتا ہے۔ اول الذکر تصور کہ ہر تخلیقی تجربہ اپنے ساتھ ہیئت بھی لے کر آتا ہے کو درست مان لیا جائے تو ہیئتوں کا شمار ممکن نہیں رہتا اور نہ ہیئت کے تجربات کی تخصیصی صورت کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا نقطۂ نظر البتہ زیادہ قابلِ قبول ہے کہ تخلیق کار شعوری طور پر ہیئت تلاشتا ہے اور اپنی پسند و ناپسند کے مطابق اس میں تبدیلیاں پیدا کر کے اپنے خیال کو اس میں سمونے کی کوشش کرتا ہے۔
قدیم چینی شاعر لیوچی کے بہ قول شاعر ایک ایسا شکاری ہے جو زمین و آسمان کو ہیئتوں کے قفس کا پابند کرتا ہے۔ یہ قول جہاں ہیئت کی قدر و قیمت کا غماز ہے وہاں اس کی اہمیت و افادیت کا ترجمان بھی ہے۔ کسی فن پارے کا مطالعہ کرتے وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فن کی تخلیق میں خیال زیادہ اہمیت کا حامل ہے یا ہیئت۔ چوں کہ یہ سوال ہر دور میں موضوعِ بحث اور باعثِ نزاع رہا ہے اس لیے علمائے فن اپنے اپنے رنگ اور انداز میں اس کا جواب تلاشتے رہے ہیں۔ علمائے فن کا ایک گروہ اس خیال کا حامی ہے کہ خیال کو ہیئت [ان کے نزدیک ہیئت تکنیک اور دیگر عناصر فن کا مجموعہ ہے] پر فوقیت حاصل ہے جب کہ دوسرا گروہ ہیئت کو خیال پر ترجیع دیتا ہے۔ دونوں گروہ دلائل و براہین سے اپنے اپنے مؤقف کو منوانے کا جتن کرتے رہے ہیں تاہم کسی کو کُلی کام یابی نہیں ہو سکی کیوں کہ ادب میں کسی بھی نتیجے یا نظریے کو قطعی اور حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا اور ادب میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ٹھہرائی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہیئت اور خیال کی اہمیت کے سلسلے میں جنم لینے والا سوال طویل بحثوں کے باوجود اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ ادب مواد اور ہیئت کے تال میل سے وجود پزیر ہوتا ہے اس لیے محض مواد (خیال) پر انحصار کرنے سے بات آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ صرف ہیئت سے کوئی مقصد پورا کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ ادب صرف تجربے کے ادراک کا نام نہیں بلکہ اس ادراک کے فنی اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ فن کار ہیئت کے ذریعے تجربے میں تنظیم، حسن اور ترتیب پیدا کر کے اپنے جذبات و تاثرات کو مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ یوں خیال اور اس کی پیش کش (اظہار) دونوں اپنی اپنی جگہ اہمیت اور قدر و قیمت کے حامل ٹھہرتے ہیں۔ اور ان دونوں کے امتزاج سے ہی ایک ایسا فن پارہ معرضِ وجود میں آتا ہے جو اپنی صفائی اور جاذبیت کے باعث قلب و نگاہ کو اپنا اسیر کر لیتا ہے۔
ہیئت کے خال و خد تہذیبی اور تمدنی زندگی میں پیوست ہوتے ہیں۔ یوں ہیئت کے آئینے میں تہذیب و تمدن کے نقوش جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ہیئت خیال کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے عصری معیارات کے تشخص کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ فن کار چوں کہ معاشرے اور عصر کا آئینہ بردار ہوتا ہے اس لیے ہیئت کی تخلیق کے وقت وہ عصری میلانات اور تہذیبی معیارات کو پیشِ نگاہ رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تمدن اور تہذیب کی تبدیلی سے ہیئتوں کا اثر کم ہونے لگتا ہے اور ان کی تازہ کاری ماند پڑنے لگتی ہے۔ ہیئت کے ذریعے معاشرے کا احساسِ جمال نکھرتا ہے اور اس کی پسند و نا پسند کا معیار بلند ہوتا ہے۔ ہیئت قاری کے ذہن میں کچھ شعری امکانات پیدا کر دیتی ہے جو اسے فن پارے کی تفہیم میں مدد دیتی ہے اور یوں وہ فن پارے سے حظ اٹھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر غزل کا نام آتے ہی قاری کے ذہن میں وارداتِ حسن و عشق، حکایاتِ وصال و ہجر، مسائلِ زمین و زمان، ردیف قافیے کی تکرار، تغزل، ایجاز و اختصار اور دیگر غزلیہ عناصر بے دار ہو جاتے ہیں اور وہ غزل کے مطالعے یا سماعت کے دوران میں ایک خاص لذت کشید کرتا ہے۔
تہذیب اور معاشرے کی تبدیلی سے خیال میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور خیال کی تبدیلی بعض اوقات ہیئت میں تبدیلی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ [واضح رہے کہ ہیئت کی تبدیلی کا مطلب اس کے ظاہری ڈھانچے کا انہدام نہیں ہے۔] شروع شروع میں نیا (تازہ) خیال اپنے آپ کو منوانے اور مقبول بنانے کے لیے پُرانی ہیئت کا سہارا لیتا ہے کیوں کہ ہیئت کا قاری کے ساتھ ایک دیرینہ تعلق ہوتا ہے۔ اور آزمودہ کاری، ذہنی قربت اور افادۂ قدیم کے پیشِ نظر ہی ہیئت نئے خیال کو قاری تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہے، اگر خیال کے ساتھ ہیئت بھی نئی ہو تو شاید معاشرہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دے یا بہت دیر بعد جا کر اس کے اثرات ظاہر ہوں۔ بعض اوقات خیال کی فرسودگی اور کہنگی کو چھپانے کے لیے بھی ہیئت کی تازگی کو کام میں لایا جاتا ہے چوں کہ ہیئت کوئی جامد یا معین چیز نہیں ہوتی اس لیے اگر تجربات اور واردات میں تبدیلی پیدا ہوتی رہے تو ہیئت میں تبدیلی بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ تجربات کا نیا رنگ و آہنگ اظہار کے لیے مناسب اور تازہ ہیئتوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اس موڑ پر فن کار یا تو پُرانی ہیئت میں جزوی تبدیلیاں کرتا ہے یا پھر کسی نئی ہیئت کی تعمیر کرتا ہے، یہاں یہ کہنا خارج از آہنگ نہیں کہ نئی ہیئتوں کی تلاش صرف جدت کی خواہش نہیں ہوتی کیوں کہ ہیئت برائے ہیئت سے فن کار کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ہیئت میں تبدیلی یا تصرف کے وقت شاعر کے پیشِ نظر اپنی زبان کی جملہ شعری روایت ہونی چاہیے اور اسے از سرِ نو شاعرانہ ہیئتوں کے امکان کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان میں نئے افکار کو پیش کرنے کی صلاحیت کس حد تک ہے اور اس میں کس طرح کے تغیرات مفیدِ مطلب اور منفعت رساں ہو سکتے ہیں۔ اگر فن کار بلا سوچے سمجھے اور اپنی شعری روایت کو نظر میں رکھے بغیر ہیئت میں تبدیلی یا تصرف کرے گا تو اس سے نہ تو کوئی مقصد پورا ہو گا اور نہ اس کی تبدیل شدہ یا وضع کردہ ہیئت کو معاشرے میں بہ نگاہِ استحسان دیکھا جائے گا۔ یہ درست ہے کہ ابتدا میں ہر نئی ہیئت اپنی نا مانوسیت کے باعث مقبولِ زمانہ نہیں ہو جاتی لیکن اگر اس میں دم خم ہو اور خیال کو بہتر شکل میں پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہو تو رفتہ رفتہ اسے قبولِ عام ملتا رہتا ہے اور قاری اس کے آئینے میں اپنے عصر کے نقوش دیکھنے لگتا ہے یوں ہیئت کی نا مانوسیت مانوسیت میں تبدیل ہو جاتی ہے، ہیئت کے تجربات سے تخلیق کا دھارا رواں دواں رہتا ہے اور اگر ہیئت کے تجربات کا سلسلہ رک جائے تو تخلیقی جمود طاری ہو جائے کیوں کہ ایک ہیئت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی، تخلیقی تجربوں میں جدت، وسعت اور پیچیدگی کے نتیجے میں ہیئت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ دوسری زبانوں کی شاعرانہ ہیئتوں سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ زبان بھی فن کار کی زبان سے تہذیبی مماثلت یا تمدنی علاقہ رکھتی ہو، اگر دونوں زبانوں میں کوئی قدر مشترک نہ ہو تو ہیئتوں کا مستعار لینا کارِ بے فائدہ ہو گا۔
اُردو زبان و ادب کی تشکیل میں ہندوستانی زبانوں کا رنگ روپ بھی شامل ہے اور عربی و فارسی جیسی توانا زبانوں کا خون بھی اس کی رگوں میں موج زن ہے، اس لیے اُردو نے اپنے ادبی آغاز میں ہی جہاں ہندوستانی زبانوں کی شاعرانہ ہیئتوں مثلاً جکری، بارہ ماسہ، اشلوک، بھجن، کِبت، دوہا وغیرہ کو قبول کیا وہاں عربی وفارسی کی شاعرانہ ہیئتوں اور اصناف جیسے مثنوی، رُباعی، قصیدہ، غزل، مسمط وغیرہ کو بھی اپنایا۔ ان اصناف اور ہیئتوں میں سے جو اُردو کے تہذیبی مزاج کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ تھیں انھیں مختصر عرصہ میں ہی قبولِ عام کا شرف نصیب ہوا اور جو اس کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی تھیں وہ بہت جلد دم توڑ گئیں۔ بعد میں مخصوص تہذیبی اور معاشرتی حالات کی تبدیلی نے بھی اُردو کی کئی مقبول اصناف کو کم رواج کر دیا جن میں قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ شامل ہیں۔ 1857ء کے بعد جب ہندوستان پر انگریزوں کا باقاعدہ اقتدار قائم ہوا تو انگریزی زبان و ادب کے اثرات یہاں کی مقامی زبانوں پر پڑے۔ اُردو پر انگریزی ادب کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگریزی کی کئی شعری اصناف اور ہیئتیں جیسے سانیٹ، لِمرک، کینٹوز، نظمِ آزاد، نظمِ معریٰ وغیرہ اردو میں تخلیقی سانچے کے طور پر اپنا لی گئیں مگر نظمِ آزاد اور نظمِ معریٰ کے علاوہ باقی ہیئتیں وقتی طور پر اپنی چمک دمک دکھا کر ختم ہو گئیں کیوں کہ یہ ہیئتیں اُردو کے تہذیبی رچاؤ کواس کی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ظاہر کرنے سے قاصر رہیں۔
- جدید علوم اور سائنسی پیش رفت نے انسانوں کی نفسیات، مزاج اور میلانات تبدیل کر دیے ہیں۔ اس تبدیلی کے باعث زندگی کے باقی شعبوں کی طرح ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس وقت ادبیاتِ عالم کو نئے موضوعات کی پیش کش کے لیے نئے پیمانوں اور شعری سانچوں کی تلاش ہے۔ہیئت پرستی ایک ادبی اصطلاح
- ترتیب محمد احمد بحوالہ http://www.urdulibrary.org/books/65-urdu-ghazal-takneek-aur-haiyat-kay-khad-o-khaal