لائیو

  1. عنوان

ماہنامہ ہیرالڈ کا پہلا شمارہ 1969 میں جاری ہوا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب آئین سازی، منصفانہ انتخابات اور معاشی انصاف کے مطالبات کی پاداش میں سیاست دانوں کو پابند سلاسل کیا جا رہا تھا۔ ریاستی ڈھانچہ اور فیصلہ سازی پر سویلین بالادستی کا نعرہ لگانے والوں کو بھارت کا ایجنٹ اور غدار وطن قرار دیا جا رہا تھا۔ نام نہاد 'حب الوطنی‘ اور ' قومی اتفاق رائے‘ نے غیر جانبدار اور آزادی رائے پر مصر ذرائع ابلاغ کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ ماہنامہ ہیرالڈ کے بانی صحافیوں نے ان معدودے چند سر پھروں کی آواز بننے کا فیصلہ کیا، جو یہ کہنے کی جرات کر رہے تھے کہ طاقت کے گھمنڈ میں عوام کے جمہوری حقوق کو غصب کرنا وطن دشمنی ہے۔

ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پاکستانی قوم سقوط ڈھاکہ کے صدمہ، بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت اور برادر کشی کے اجتماعی احساس جرم کا شکار تھی۔ یہ قوم 'بچی کھچی‘ مملکت خداداد کے اس خواب فروش کی طرف دیکھ رہی تھی ، جس نے آئین کی سربلندی، قانون کی بالادستی، معاشی مساوات، سماجی استحکام اور احترام آدمیت جیسے آفاقی آدرشوں کو 'روٹی، کپڑا اور مکان‘ کے نعرہ میں لپیٹ کر الیکشن جیتا تھا۔ یہ ہزیمت، پچھتاوے، خجالت،۔۔۔۔اور دوسری طرف،۔۔۔۔'دھول سے ماتھا اٹھانے‘ کا دور تھا۔ ہر کوئی خود سے پوچھتا پھر رہا تھا کہ، 'وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے‘ اور 'خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘۔

ماہنامہ ہیرالڈ کی بانی ایڈیٹر، لیجنڈری صحافی رضیہ بھٹی تھیں، جن کی ٹیم میں آج کے سینئر صحافی زاہد حسین بھی تھے۔ زاہد حسین کے مطابق، ''ماہنامہ ہیرالڈ کی بندش ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس نے فوجی آمر ضیا الحق کے استبدادی قوانین کے خلاف آواز اٹھائی، جس کی پاداش میں ہر ماہ اس کے کئی صفحات خالی شائع ہوتے تھے۔ جرنل ضیا الحق نے ایک پریس کانفرس میں ہیرلڈ کی کاپی لہراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس قسم کی صحافت کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘