ہ اور ھ کا فرق
اردو میں ’’ہ‘‘ ہائے ہوز اور ’’ھ‘‘ ہائے دو چشمی کو لکھتے وقت اکثر گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔ اردو کی پرانی تحریروں میں ’’ھ‘‘ کا استعمال کم تھا اور ہندی الاصل الفاظ ’’بھول، پھول، تھال، کھانا، دکھ، سکھ، سنگھ‘‘ وغیرہ کو عموماً ’’ہ‘‘ سے لکھا جاتا تھا اور ان کی صورت ’’بہول، پہول، تہال، کہانا، دکہہ، سکہہ، سنگہہ‘‘ ہوتی تھی۔ اب صورت حال بہت بہتر ہو گئی ہے۔ غالباً انیسویں صدی کے آخری چند عشروں میں اردو اخبارات کے عام چلن کی وجہ سے ’’ہ‘‘ کی بجائے ’’ھ‘‘ کا استعمال عام ہو گیا۔ اب املا کا یہ ابہام کافی حد تک ختم ہو گیا ہے اور الفاظ کو زیادہ تر درست لکھا جاتا ہے۔ اس لیے ’’بہاری‘‘ اور ’’بھاری‘‘، ’’پہاڑ‘‘، اور ’’پھاڑ‘‘، ’’دہرا‘‘ اور ’’دھرا‘‘ اور ’’دہن‘‘ اور ’’دھن‘‘ لکھتے اور پڑھتے وقت اِن میں امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابھی تک بہت سے الفاظ مثلاً ’’انھوں، انھیں، تمھارا، تمھیں، چولھا، دولھا، دلھن‘‘ وغیرہ کو ہائے ہوز سے ہی یعنی ’’انہوں، انہیں، تمہارا، تمہیں، چولہا، دولہا، دلہن‘‘ لکھا جاتا ہے اور اسے عام طور پر غلط سمجھا بھی نہیں جاتا۔
دراصل ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کو ایک ہی نام دینے کی وجہ سے ایک بہت بڑا مغالطہ در آیا ہے کہ شاید یہ ایک ہی حرف ہے یا دونوں ایک دوسرے کے مترادف و متبادل ہیں۔ اس غلط فہمی کی وجہ قدیم ماہرینِ لسانیات کا یہ تصور ہے کہ اردو میں بھاری یا سخت آوازوں والے حروف ’’بھ، پھ، تھ، کھ‘‘ وغیرہ مرکب حروف ہیں۔ یعنی ب+ہ= بھ، پ+ہ= پھ، ت+ہ= تھ، ک+ہ= کھ۔ اسی لیے آج تک بچے کو جب اردو حروف تہجی کا ابتدائی تعارف کرایا جاتا ہے تو مروجہ قاعدوں میں تمام دو چشمی حروف کو حروف تہجی کا حصہ ظاہر نہیں کیا جاتا۔ فارسی حروف میں صرف ’’ٹ‘‘، ’’ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ کی تین آوازوں کا اضافہ کر کے اردو حروف تہجی کو مکمل تصور کر لیا جاتا ہے۔ بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے سب حروف کی شکلیں اور آوازیں ذہن نشین کر لی ہیں۔ اگلے مرحلے میں بچے کو حروف جوڑ کر مختلف آوازوں کو ملانے اور لکھتے وقت انھیں جوڑنے اور توڑنے کے قواعد سکھائے جاتے ہیں۔ اب بچہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ حروف کی سب مفرد اور مرکب شکلوں سے آگاہ ہو گیا ہے، لہٰذا اس کے منہ سے نکلنے والی ہر آواز اب حروف جوڑ کر الفاظ کی شکل میں لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن اس مرحلے کے بعد وہ ایک نئی الجھن کا شکار ہوتا ہے اور اسے یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہماری زبان میں ایک اور ’’ہ‘‘ بھی موجود ہے اور اس کی دو آنکھیں ہیں۔ جب اس کی آنکھیں ب، پ، ت، ٹ، ج، چ، د، ڈ، ر، ڑ، ک، گ، ل، م اور ن سے ملتی ہیں یا لڑتی ہیں تو بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ وجود میں آتے ہیں۔ اس طرح بچہ ان حروف کی شکلوں اور آوازوں سے تو شاید واقف اور مانوس ہو جاتا ہے لیکن اسے یہ علم عمر بھر نہیں ہوتا کہ وہ ہائے دو چشمی والے حروف کو حروف تہجی کا حصہ تصور کرے یا نہیں۔ اگر انھیں حروف تہجی کہا جائے تو پہلے تعارف میں انھیں شامل کیوں نہیں کیا جاتا اور اگر وہ حروف تہجی کا حصہ نہیں تو انھیں کیا نام دیا جائے؟ جب کہ ان کے استعمال کے بغیر اردو میں شاید ایک جملہ لکھنا بھی ممکن نہ ہو۔
باون (52) حروف کے خاندان میں اگر پندرہ کو خاندان کا حصہ ہی نہ مانا جائے تو خاندان کا نظام کیسے چلے گا۔ اس الجھن کا شکار معمولی پڑھے لکھے افراد سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ لسانیات کے ماہرین اور لغات کے مرتبین بھی ہیں۔ لغت کی بعض کتابوں میں بھی ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں کوئی فرق نہیں سمجھا گیا اور ان کو اس طرح مخلوط و مجہول کر دیا گیا کہ ایک عام فرد لفظ کے تلفظ، املا یا معنی سمجھنے کے بجائے مزید الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے ’’منہ‘‘، ’’منھ‘‘، ’’مونہہ‘‘ اور ’’مونھ‘‘ ایک ہی لفظ چار مختلف شکلوں میں لکھا جاتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے کسی اور املا سے بھی لکھا جاتا ہو جو راقم کو معلوم نہ ہو۔ لطف کی بات یہ کہ ان املا کو لغت کی کتابوں میں بھی کسی تصریح کے بغیر کبھی ایک طرح سے اور کبھی دوسری طرح سے لکھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ’’ٹ‘‘، ’’ڈ‘‘ اور ’’ڑ‘‘ مرکب اور مخلوط حروف نہیں یعنی وہ کسی دوسرے حرف کو ’’ط‘‘ سے ملا کر نہیں بنائے گئے، اُسی طرح اردو میں ہائے دو چشمی گروہ کے سارے حروف اپنی اپنی حیثیت میں مستقل اور مفرد حروف ہیں۔
’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں امتیاز نہ کرنے کی وجہ سے اردو کے قدیم شعرا اپنے شعری دیوان مرتب کرتے وقت ’’ھ‘‘ کی ردیفوں مثلاً ’’آنکھ، ساتھ، ہاتھ‘‘ وغیرہ کو ردیف ’’ہ‘‘ کی ذیل میں ہی لکھا کرتے تھے۔ اس طرح ’’ہ‘‘ کی ردیف میں ’’یہ، وہ، نقشہ، جگہ‘‘ کے ساتھ ہی ’’آنکھ، بیٹھ، ساتھ، ہاتھ‘‘ وغیرہ بھی موجود ہوتے تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ ردیفوں کے نام صرف فارسی حروف پر رکھتے تھے اور ’’بھ، ٹھ، چھ، کھ‘‘ وغیرہ کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ فن ابجد اور علم الاعداد تقریباً اُتنے ہی پرانے فنون ہیں، جتنا پرانا فنِ کتابت ہے۔ ہمارے ہاں رائج فنِ ابجد عربی کے اٹھائیس حروف تہجی پر مبنی ہے۔ اس فن کے تحت ہر حرف کی ایک عددی قیمت متعین کر دی گئی ہے، مثلاً الف=ا، ب=۲، ج=۳ اور د=۴۔ اور اسی طرح تین تین اور چار چار حروف کے مختلف ترتیب سے سیٹ بنا کر ان کی اکائی، دہائی اور سیکڑا میں قیمتیں فرض کر لی گئی ہیں۔ عربی سے یہ فن فارسی اور اردو میں بھی پہنچا لیکن ان زبانوں کے زائد حروف کی کوئی قیمت مقرر نہیں کی گئی بلکہ ان کی قیمتیں قریب ترین حرف کی قیمت کے برابر فرض کر لی گئیں۔ مثلاً پ=ب=۲، چ=ج=۳ اور گ=ک=۲۰۔ اردو میں مستعمل ہندی حروف ٹ، ڈ، ڑ وغیرہ بھی قریب ترین حرف کے عدد کے برابر شمار کیے گئے لیکن ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کو ایک ہی حرف فرض کر کے ان کی قیمت ایک ہی رکھی گئی۔ یہاں اس کی مکتوبہ شکل سے دھوکا کھا کر اسے ب+ھ= ۲+۵= ۷ تصور کی گئی ہے۔
آواز اور اس کی مقررہ علامت یعنی حرف کے باہمی تعلق کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے علمِ عروض ایک بہت اچھا ذریعہ ہے۔ عروض میں مصرع کی تقطیع کے قواعد کی رو سے ’’ھ‘‘ خاندان کے تمام حروف مفرد ہی شمار ہوتے ہیں۔ ان کی مکتوبہ شکل سے دھوکا کھا کر انھیں مخلوط یا مرکب حروف نہیں سمجھا جاتا۔ یہ الگ بات ہے کہ قدیم عروض دان انھیں واضح طور پر ایک حرف ماننے کے بجائے یوں لکھا کرتے تھے کہ ’’تقطیع میں ’ھ‘ ساقط ہو جاتی ہے۔‘‘ حال آں کہ اس سقوط سے مراد یہی ہے کہ ’’ھ‘‘ کی اپنی کوئی الگ آواز نہیں ہے اور یہ مخلوط حرف نہیں۔ سات، ساتھ، کاٹ، کاٹھ، کھاٹ اور گول، گھول وغیرہ الفاظ ہم وزن ہیں جب کہ ’’بھاؤ اور بہاؤ‘‘، ’’دھن اور دہن‘‘، ’’پھن اور پہن‘‘ اور ’’پھل اور پہل‘‘ ہم وزن نہیں ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کو ایک ہی حرف یا ایک دوسرے کا متبادل و مترادف سمجھنا بہت بڑا علمی مغالطہ ہے۔
حقیقت میں ’’ھ‘‘ اردو حروف تہجی کی وہ مکتوبہ شکل یا علامت ہے جو پندرہ حروف میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ الگ سے کوئی حرف نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے۔ اگر حروف ہجا کی اشکال کے لحاظ سے گروہ بندی کی جائے تو ’’ب، پ، ت، ٹ، ث‘‘، ’’ج، چ، ح، خ‘‘ اور ’’ر، ڑ، ز، ڑ‘‘ وغیرہ چند گروہ وجود میں آتے ہیں جنھیں تہجی ترتیب میں ایک ساتھ لکھا جاتا ہے۔ ’’بھ، پھ، تھ۔۔۔ لھ، مھ، نھ‘‘ وغیرہ بھی ہم شکل حروف کا ایک گروہ ہے جس کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ یعنی پندرہ ہے لیکن انھیں جب ایک گروہ کی شکل میں لکھا جائے تو بنیادی حروف تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اور اگر بنیادی حروف کی ترتیب میں یعنی ’’ب‘‘ کے بعد ’’بھ‘‘ لکھا جائے تو پھر بھی ترتیب نمبر سے محروم رکھا جاتا ہے اور انھیں اس طرح منتشر کر دیا جاتا ہے کہ ان کی اہمیت اجاگر نہیں ہو پاتی۔
عربی زبان کے بعض خطوط میں ہائے مختفی (ہ) کو ہائے دو چشمی (ھ) کی طرح بھی لکھا جاتا ہے اور یہی رواج اردو میں بھی موجود ہے۔ کیونکہ عربی میں ہائے دو چشمی کا کوئی الگ وجود نہیں ہے، اس لیے اسے دونوں شکلوں میں لکھنا جائز ہے لیکن اردو میں ایسی ’’ھ‘‘ پر مشتمل حروف کا ایک پندرہ رکنی خاندان موجود ہے جن کا ہائے مختفی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کو ایک دوسرے کا مترادف یا متبادل تصور نہ کیا جائے اور املا میں بھی ان کے فرق کو ملحوظ رکھ کر ایک بہت بڑے مغالطے کا اِزالہ کیا جائے۔
اردو میں ’’ڑ‘‘ سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا اور اسی طرح ’’ژ‘‘ (زائے فارسی) کا اردو میں استعمال بھی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وہ حروف تہجی میں برابر کے ارکان ہیں تو ہندی الاصل بھاری آوازوں والے حروف جو ہائے دو چشمی سے لکھے جاتے ہیں، انھیں بھی حروف تہجی کی فہرست میں شامل کر کے بچے کو حروف کے پہلے تعارف میں ہی ان سے روشناس کرایا جانا چاہیے تاکہ ایک بہت بڑے لسانی سقم کو دور کیا جا سکے اور املا کے مغالطے سے نجات حاصل کی جا سکے۔
لغت کی کتابوں میں ان حروف کو شامل کیا جاتا ہے اور ان کی آوازوں پر مشتمل الفاظ کے معانی و مطالب اور زبان کے قواعد کی دوسری ضروری تصریحات کی جاتی ہیں لیکن انھیں حروف تہجی کی فہرست میں کوئی ترتیب نمبر نہیں دیا جاتا۔ مثلاً ’’ب‘‘ کو اردو حروف تہجی کا دوسرا حرف لکھا جاتا ہے اور ’’بھ‘‘ کو ایک مستقل حرف قرار دے کر اس سے شروع ہونے والے الفاظ کی الگ فہرست لکھی جاتی ہے لیکن اسے تیسرا حرف نہیں سمجھا جاتا بلکہ آگے چل کر ’’پ‘‘ کو تیسرا حرف شمار کیا جاتا ہے۔ لغت کے بعض مرتبین نے ’’بھ‘‘، ’’پھ‘‘ وغیرہ کو الگ حرف شمار ہی نہیں کیا اور ’’ب-و‘‘ کے بعد ’’ب-ہ اور ب-ھ‘‘ کی ذیل میں لکھا ہے اس طرح ’’بہرا‘‘ اور ’’بھرا‘‘، ’’بہاؤ‘‘ اور ’’بھاؤ‘‘ کو ایک ساتھ لکھ کر ان کے تلفظ کی الگ الگ تصریح بھی نہیں کی اور یوں مسئلے کو الجھا دیا ہے۔ اگر انگریزی حروف ہجا کی تعداد چھبیس اور عربی کے حروف کی تعداد اٹھائیس ہے اور ان زبانوں کی تمام تحریروں میں ایسی کوئی شکل یا علامت نہیں پائی جاتی جو اِن چھبیس یا اٹھائیس حروف کے علاوہ ہو تو اردو میں ایسا کیوں ہے کہ اس کے سینتیس حروف تہجی کے علاوہ پندرہ مزید ایسی اشکال بھی ہیں جو بنیادی حروف تو نہیں لیکن ان کے بغیر زبان مکمل بھی نہیں ہو سکتی۔
زبانیں ایک دوسرے کے میل جول اور اشتراک و ادغام سے بنتی ہیں۔ کسی بھی لفظ کے تلفظ یا املا کی سب سے بڑی سَنَد اس کی ابتدائی زبان ہوتی ہے جس سے وہ کسی دوسری زبان میں منتقل ہوا ہو۔ دو چشمی حروف چونکہ ہندی الاصل ہیں اور دیونا گری رسم الخط میں انھیں آزاد اور مستقل حرف کی حیثیت حاصل ہے، ان کی املائی اشکال بھی کسی دوسرے قریب المخرج حرف سے ملتی جلتی نہیں ہیں، اس لیے اردو میں بھی انھیں الگ حرف کی حیثیت ملنی چاہیے اور حروفِ تہجی کی فہرست میں انھیں خاص ترتیب نمبر دیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں اردو لغت بورڈ نے اردو کی جدید لغت اردو زبان و ادب کے بہت بڑے ماہرین کی کم و بیش نصف صدی کی محنت سے مکمل کی ہے۔ اس لغت میں حروف کی ترتیب ا، ب، بھ، پ، پھ ہی رکھی گئی ہے۔ ۳۲ جلدوں پر مشتمل ہزاروں صفحات کی یہ لغت چونکہ عام آدمی کی رسائی سے باہر ہے، اس لیے معلوم نہیں ہو سکا کہ اس میں دو چشمی ’’ھ‘‘ والے حروف کو ایک مستقل حرف تسلیم کیا گیا ہے یا نہیں اور اسے تہجی ترتیب نمبر بھی دیا گیا ہے یا نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہائے دو چشمی والے حروف برصغیر پاک و ہند کی تقریباً ساری زبانوں میں موجود ہیں اور حروفِ تہجی میں ان کا اپنا اپنا مستقبل ترتیب نمبر ہے۔ ہندی، پنجابی (گورمکھی رسم الخط)، گجراتی، سندھی اور بنگالی وغیرہ میں انھیں ذیلی، ضمنی، مخلوط یا مرکب حروف نہیں سمجھا جاتا۔
اہل علم کو چاہیے کہ ان معروضات پر سنجیدگی سے غور کریں اور اردو املا کے نظام میں موجود ایک بہت بڑے علمی سقم اور مغالطے سے نکلنے کی کوشش کریں۔ امید ہے کہ عام قارئین بھی اس طرف توجہ دیں گے اور اگر تحریر میں کوئی ابہام یا غَلَط فہمی پر مبنی کوئی بات موجود ہو تو اسے دور کرنے میں رہنمائی کریں گے