یادگار غالب
یادگار غالب اردو کے سب سے معتبر اور معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی سوانح عمری ہے۔ یاد گار غالب کے مصنف مولانا الطاف حسین حالی ہیں۔ اقبال خواجہ
حالی اگر علم کی تشنگی بجھانے کے لیے گھر سے روپوش ہوکر پہلی بار 1853 میں دلی نہ جاتے پھر دوبارہ فکر معاش میں 1863 میں دہلی کا رخ نہ کرتے اور شیفتہ کے ہاں قیام نہ کرتے تو ممکن تھا کہ حالی کو غالب سے فیض اٹھانے کا موقع نہ ملتا اور اردوادب یادگار غالب، جیسی شاہکار تصنیف سے محروم رہ جاتا۔ پہلی مرتبہ حالی جب دلی آئے تو ان کی عمر 17 سال تھی۔ یہاں حالی نے مختلف علما و فضلاء سے استفادہ کیا ۔ دلی میں اس وقت فن کے با کمال موجود تھے۔ ذوق ،غالب ،آزردہ ،صہبائی عروس سخن کے گیسو سنوار رہے تھے شعر و ادب کی محفلیں گرم رہتی تھیں حالی بھی ان محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ یہ حالی کی بصیرت کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ انھوں نے غالب کے کلام کو غالب ہی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ یہ نہ صرف غالب کی بلکہ اردو ادب کی بھی خوش نصیبی ہے کہ غالب کو حالی جیسا شاگرد ملا جو علم و ادب کاسچا شیدائی فن شعر کا مزاج داں اور بالغ نظر نقاد تھا۔ حالی نے اردو شاعری کو حیات نو بخشی۔ غالب سے حالی کی ملاقات محض اتفاق تھی۔ زمانے کی ناقدر شناسی نے غالب کو دقت پسند اورمہل گو شاعر مشہور کر دیا تھا۔ ذوق غالب سے بہتر شاعر سمجھے جاتے تھے اس دور میں محاورہ کو شعر میں ڈھالنا قافیوں کے انبار لگادینے ہی کو شعری فنکاری سمجھتے تھے۔ شاعری صرف غزل میں محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ غالب سے اپنی ملاقات کا ذکر حالی ان الفاظ میں کرتے ہیں جس زمانے میں میرا دلی جانا ہوا تھا مرزا اسد اللہ غالب مرحوم کی خدمت میں اکثر جانے کا اتفاق ہوتا تھا اور اکثر ان کے اردو اور فارسی دیوان کے اشعار جو سمجھ میں نہ آتے تھے ان کے معنی ان سے پوچھا کرتا تھا اور چند فارسی قصیدے انھوں نے دیوان میں سے بھی پڑھائے تھے‘‘ شیفتہ مومن انتقال کے بعد غالب سے اصلاح لینے لگے تھے۔ حالی جب دوسری مرتبہ دلی پہنچے تو وہ شیفتہ کے ہاں تقریبا آٹھ سال گزارے۔ شیفتہ کے ساتھ حالی بھی اپنا کلام اصلاح کے لیے غالب کے پاس بھیجتے تھے۔ غالب شیفتہ کی سخن فہمی کے قائل تھے حالی بھی شیفتہ کی تنقیدی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ ان کی شعر فہمی کی صلاحیت کو نکھارنے میں شیفتہ کا بھی حصہ رہا۔ حالی مستقل طور پر جہانگیر آباد میں تھے لیکن کبھی کبھی شیفتہ کے ساتھ دلی بھی جاتے اور غالب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ انھیں غالب سے بے پناہ عقیدت تھی۔1869 میں غالب کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت حالی دہلی میں موجود تھے حالی کو غالب سے ادبی و ذہنی قربت تھی۔ ان کے لیے غالب کی جدائی ایک نا قابل برداشت صدمہ تھا۔ وہ غالب کی موت کو ایک زبردست قومی نقصان تصور کرتے ہیں۔ غالب کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ہے اس کے ہر مصرع سے ان کی محبت ،عقیدت و ملال جھلکتا ہے۔ غالب کی موت ان کے نزدیک ایک ادبی دور کا خاتمہ ،ایک تہذیب کی موت تھی۔ اس مرثیہ میں حالی نے غالب کی شاعرانہ عظمت اور شخصیت کو یوں ابھارا ہے کہ ہندوستان کا تہذیبی منظر روشن ہوجاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عابد حسین ’’ غالب کی سیرت کا وہ نقشہ کھینچا ہے کہ اس سے بہتر تصویر ہماری نظم و نثر میں نہیں ملتی۔ یونانیوں کے ذہن میں جو تصور انسانیت کا تھا اس کی جھلک غالب کی ذات میں نظر آئی اور اسے انھوں نے شعر کا جامہ پہناکر شہرت دوام بخشی ہے۔‘‘غالب جیسی اہم ادبی شخصیت کے اٹھ جانے سے صحیح معنوں میں بزم شعر سونی ہو گئی ۔ نقدِ معنی کا گنج داں نہ رہا خواں مضمون کا میزباں نہ رہا ہوچکیں حسن و عشق کی باتیں گل و بلبل کا ترجما نہ رہا مرثیہ غالب کے آخری بند میں غالب کی شہرت اور نام آوری ،استادی اور سخن شناسی کی طرف اشارہ ہے ۔ ہند میں نام پائے گا اب کون سکہ اپنا بٹھائے گا اب کون مرگیا قدردان فہم سخن شعر ہم کو سنائے گا اب کون تھا بساط سخن میں شاعر ایک ہم کو چالیں بتائے گا اب کون شعر میں نا تمام ہے حالی غزل اس کی بنائے گا اب کون مرثیہ غالب اردو کے شخصی مرثیوں میں ایک امتیاز رکھتا ہے۔ غالب اور حالی دونوں کے مزاج میں نمایاں فرق تھا۔ حالی سے غالب کا تعلق زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال رہا وہ بھی مسلسل نہیں مگر اس قلیل عرصے میں انھیں غالب سے ایک لگاو پیدا ہو گیا ذہنی وابستگی رہی۔ حالی نے غالب سے استفادہ کیا۔ ان کے ادب کمالات کو سمجھنے پرکھنے اور تجزیہ کرنے کی سعی کی اور ادبی تاریخ میں ان کا مقام متعین کیا۔ اگرچہ غالب کے اور بھی شاگرد تھے جیسے مرزا ہر گوپال تفتہ، میر مہدی حسن مجروح وغیرہ لیکن غالب کے کلام پر ان کی حقیقی عظمت کا احساس عام کرنے ان کی مقبولیت میں اضافہ کرنے، ان کے کلام کو عوام تک پہنچانے میں جو کردار ’’یادگار غالب‘‘ نے ادا کیا وہ اردو ادب میں یادگار رہے گا۔ غالب کی حقیقی عظمت پر توجہ سب سے پہلے حالی نے کی۔ ’’یادگار غالب‘‘ غالب کی اولین سوانح عمری ہے۔ سوانح عمری سے بڑھ کر یادگار تنقیدی کارنامہ بھی ہے۔ اس میں غالب کی زندگی اور شخصیت کی کامیاب تصویر کشی ہے۔ ان کی نثر نگاری اور شاعری کا جائزہ لیا گیا۔ سوانح کے اعتبار سے کسی قدر تشنہ ہے۔ کتاب کا صرف چوتھائی حصہ سوانح حیات سے متعلق ہے۔ انھوں نے حالات زندگی تفصیل سے پیش نہیں کی۔ حالی کے دل میں غالب کے لیے جو عقیدت و احترام کا جذبہ کارفرما تھا وہ غالب کی وفات کے بعد بھی برقرار رہا۔ حالی نے زیادہ زور غالب کے کمال فن کو ظاہر کرنے پر صرف کیا ہے۔ کارناموں کے مقابلے میں حیات کو کم اہمیت دی ہے۔ حالی کی ملاقات غالب سے اس وقت ہوئی جبکہ غالب کا عہد شباب گذر چکا تھا۔ چونکہ حالی نے غالب کی جوانی کارنامہ نہیں دیکھا تھا اس لیے ان کی ایام شباب کی کامیاب تصویر کشی نہ کرسکے۔ حالی نے غالب کی سیرت کے اہم نقوش کو ابھارا ہے اس کے ساتھ ان کی کمزوریوں کا بیان بھی کر دیا ہے۔ خانگی معلومات کو بھی پیش کیا ہے۔ حالی نے غالب کے قیام لکھنؤ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایام غدر میں غالب کو جن مصائب سے دوچار ہونا پڑا خصوصیت کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف کی موت کا ان کو جو صدمہ ہوا ان پر یادگار غالب میں روشنی ڈالی ہے ۔ عہد حاضر کی تحقیق نے یادگار غالب کے بہت سے واقعات کی تردید کی ہے۔ ان کی تحقیقی نا ہمواریوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یادگار غالب کے بیشتر بیانات تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ حالی ذاتی طور پر غالب سے قریب تھے۔ غالب کی رفاقت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ جتنی مستند سوانح عمری کی توقع حالی سے کی جا سکتی تھی وہ ’’یادگار غالب‘‘ سے پوری نہیں ہوتی ۔