یحییٰ بن یحیی مصمودی
حضرت یحییٰ بن یحیی مصمودیؒ کا شمار تبع تابین میں ہوتا ہے۔
حضرت یحییٰ بن یحیی مصمودیؒ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 152 ھ |
درستی - ترمیم |
موطا کو امام مالکؒ سے روایت کرنے والوں کی تعداد بقول شاہ عبد العزیز صاحبؒ محدث دہلوی ایک ہزار ہے لیکن مؤطا کے جو نسخے مشہور و معتبر ہیں، ان میں یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کا روایت کردہ نسخہ بھی ہے؛ بلکہ مصمودی کی روایت کو بالا تفاق معتبر ترین اور مقبول ترین قرار دیا جاتا ہے،اس کی شہرت کا اندازہ لگانے کے لیے اس بات کا ذکر کافی ہے کہ آج مؤطا کا نام ذہن میں آتے ہی اس سے مراد نسخہ مصمودی ہوتا ہے،یحییٰ اپنی گونا گوں صلاحیتوں کی بنا پر امام مالکؒ کے محبوب ترین تلامذہ میں تھے،اندلس میں مالکی مذہب کا چرچا ان ہی کی وجہ سے ہوا۔
نام ونسب
ترمیمیحییٰ نام اور ابو محمدکنیت تھی،پورا سلسلہ نسب یہ ہے: یحییٰ بن یحییٰ بن کثیر بن وسلاس بن شملل بن منغایا اللیثی [1] طنجہ کے ایک مشہور بربری قبیلہ مصمودی سے تعلق رکھتے تھے،بنو لیث کے غلام تھے،ان کے حق پرست پر مشرف باسلام ہوئے تھے،انہی بزرگ کی طرف منسوب ہوکر یحییٰ اللیثی کے نام سے شہرت پائی۔ [2]
ولادت
ترمیمیحییٰ کے دادا کثیر نے جن کی کنیت ابو عیسیٰ تھی،اندلس کو اپنا وطن ثانی بناکر قرطبہ سکونت اختیار کرلی تھی،وہیں 152ھ میں یحیییٰ کی ولادت ہوئی۔[3]
تحصیلِ علم
ترمیمشیخ یحییٰ نے سب سے پہلے قرطبہ ہی میں یحییٰ بن مضر الاندلسی سے احادیث کی سماعت کی اورپھر امام مالک کے تلمیذ رشید زیاد بن عبد الرحمن اللخمی سے پوری مؤطا کا سماع کیا، اس کے بعد طلبِ علم کے جذبہ شدید نے انھیں آمادہ سفر کیا اوروہ کشاں کشاں دربار نبوی پہنچے، ابن فرحون اورحافظ ابن عبد البر کے بیان کے مطابق اس وقت ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی [4] لیکن صاحب اوجز کی تحقیق ہے کہ ان کی عمر 28 سال تھی،اس لیے کہ شیخ یحییٰ کی ولادت 152 ھ میں ہوئی اور 179ھ میں وہ سماع مؤطا کے لیے مدینہ آئے، اسی سال امام مالک کی وفات ہوئی۔ [5] مدینہ میں اس وقت امام مالکؒ اپنے فیض کا دریا رواں کیے ہوئے تھے،مصمودی نے ان سے مؤطا کی سماعت کی ، لیکن اسی اثناء میں امام مالکؒ اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے اورکتاب الاعتکاف کے تین ابواب سماعت سے رہ گئے،اسی بنا پر یحییٰ ان ابواب کو زیاد سے روایت کرتے ہیں بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ ابواب امام مالکؒ کی وفات کی وجہ سے نہیں ؛بلکہ کسی اورمانع کی بنا پر سماعت سے رہ گئے اور امام مالکؒ کی وفات شیخ یحییٰ کے دوسری مرتبہ مدینہ آنے کے وقت ہوئی،اس تحقیق کے مطابق ابن عبد البر کا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ سماع مؤطا کے وقت مصمودی کی عمر 18 سال کی تھی اور اغلب ہے کہ جب مصمودی امام مالکؒ کے انتقال کے وقت ان کی خدمت میں تھے،اس وقت ان کی عمر 28 سال ہی ہو۔ مصمودی نے تحصیل علم کے لیے اندلس سے دو مرتبہ مشرق کا سفر کیا،پہلی مرتبہ میں انھوں نے امام مالک کے علاوہ سفیان بن عیینہ،لیث بن سعد، عبد اللہ بن وہبب،اورنافع بن نعیم القاری سے کسب فیض کیا، دوسرے علمی سفر میں انھوں نے ابن القاسم سے جو امام مالک کے اعیان تلامذہ میں شمار کیے جاتے ہیں،سماعِ حدیث کی۔ [6]
شیوخ
ترمیمامام مالکؒ کے علاوہ مصمودیؒ کو جن کبار ائمہ سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا ان میں مشہور نام یہ ہیں۔ یحییٰ بن مضر، زیاد بن عبد الرحمن، لیث بن سعد، سفیان بن عیینہ،عبد اللہ بن وہب ابن القاسم،قاسم بن عبد اللہ العمری،انس بن عیاض
تلامذہ
ترمیممصمودی کے منبع فیض سے جو لوگ مستفید ہوئے ان میں بقی بن مخلد،محمد بن وضاح،محمد بن العباس،صباح بن عبد الرحمن العتیقی وغیرہ شامل ہیں۔ [7]
علمی انہماک
ترمیمتحصیلِ علم کے لیے جس لگن،انہماک اورذوق وشوق کی احتیاج ہوتی ہے،وہ ان میں بدرجہ اتم موجود تھا،جب امام مالک کی خدمت میں سماع مؤطا کے لیے حاضر ہوئے تو دنیا و مافیہا سے بے تعلق ہوکر انھوں نے کلی توجہ سماع حدیث پر صرف کی ؛چنانچہ بیان کی جاتا ہے کہ ایک بار اثناءدرس میں کسی نے کہا:"ہاتھی آگیا" تمام شرکاءِ درس ہاتھی دیکھنے چلے گئے،لیکن یحییٰ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں،امام مالک نے تعجب سے دریافت کیا کہ "اندلس میں تو ہاتھی ہوتا نہیں،پھر تم کیوں نہیں دیکھنے گئے، شیخ یحییٰ نے اس کا جو جواب دیا وہ بلاشبہ ہر عصر وعہد میں طالبان علم کے لیے دلیل راہ بنانے کے لائق ہے،فرمایا: لم ارحل لانظر الفیل وانما رحلت لاشاھدک واتعلم من علمک وھدیک میں یہاں ہاتھی دیکھنے کے لیے نہیں آیا، میں تو یہاں اتنی دور سے صرف آپ کا فیضِ صحبت اُٹھانے اورآپ کے علم وسیرت سے کچھ حاصل کرنے آیا ہوں۔ اپنے لائق فخر شاگرد کا یہ جواب سُن کر امام مالک اتنے زیادہ خوش ہوئے کہ انھوں نے اسی وقت شیخ یحییٰ کو "عاقل اھل الاندلس" کا خطاب عطا فرمایا۔ [8]
تفقہ
ترمیمروایت حدیث کے ساتھ شیخ یحییٰ کو فقہ میں بھی درجہ کمال حاصل تھا،یہ تفقہ ان کی ذاتی صلاحیت اورمحنت کے ساتھ ساتھ امام مالک اور سفیان بن عیینہؒ کے فیض صحبت کا نتیجہ تھا،اندلس میں فقہ مالکی کی اشاعت میں اسد بن فراتؒ،ابن حاتمؒ، اورعبداللہ بن وہبؒ وغیرہ کے ساتھ مصمودی کا بھی بڑا حصہ ہے،حافظ ابن حجر انھیں "وکان فقیھاً حسن الرائی" لکھتے ہیں۔ [9]
افتاء
ترمیممصمودی کے غیر معمولی تفقہ ہی نتیجہ تھا،کہ اہلِ اندلس ان کے فتووں پر پورا اعتماد کرتے تھے،اس فن میں ان کی مہارت مسلم تھی،محققین کا اتفاق ہے کہ یحییٰ جب مختلف ممالک سے تحصیلِ علم کرنے کے بعد اندلس واپس آئے ،تو مسند علم کی صدارت ان کے حصہ میں آئی۔ ابن خلکان نے لکھا ہے: ان یحیی عاد الی الاندلس وانتھک الیہ ریاسۃ بھا وبہ انتشرمذھب مالک فی تلک البلاد وتفقہ بہ جماعۃ لا یحصون عدوًا [10] بلاشبہ یحییٰ اس حال میں اندلس واپس آئے کہ ان کی ذات علما ومدرسین کا مرکز و منتہی بن گئی،یحییٰ ہی کے ذریعہ اندلس میں مالکی مذہب فروغ پزیر ہوا اوران سے اتنے لوگوں نے تفقہ حاصل کیا جن کی تعداد کا شمار ممکن نہیں۔ حافظ ابن عبد البر رقمطراز ہیں: قدم الی الاندلس بعلم کثیر فدارت فتیا الاندلس بعد عیسی بن دینار الیہ وانتھی السلطان والعامۃ الیٰ رأیہ [11] یحییٰ کثیر علم کے ساتھ اندلس واپس آئے پس اندلس کے منصب افتاء پر عیسیٰ بن دینار کے بعد وہی فائز تھے اور عوام و خواص سب آپ ہی کی رائے کی طرف رجوع کرتے تھے۔
حق گوئی و بیباکی
ترمیمفقہ وفتاویٰ میں وہ اپنی رائے کا اظہار برملا کرتے تھے اوراس میں کسی کے رعب و دبدبہ کی پروا نہیں کرتے تھے،یہاں تک کہ دربار شاہی بھی انھیں مرعوب نہ کرسکتا تھا،ایک بار اندلس کے حاکم عبد الرحمن بن حکم الاموی نے ماہ رمضان میں اپنی ایک محبوب لونڈی سے مجامعت کی،امیر میں چونکہ دین کا احساس باقی تھا، اس لیے اپنی اس اضطراری حرکت پر اسے شرمندگی اورکفارۂ معصیت کی فکر دامنگیر ہوئی،اس نے شہر کے تمام فقہا کو قصِر شاہی میں طلب کرکے کفارہ کا مسئلہ دریافت کیا،یحییٰ مصمودی نے پوری بیباکی کے ساتھ فرمایا کہ امیر کو پے در پے دو مہینہ کے روزے رکھنے چاہیے،شیخ یحییٰ کی جلالتِ شان کی وجہ سے وہاں کسی فقیہ کو ان سے اختلافِ مجال نہ ہو سکی،لیکن دربار سے واپس آنے کے بعد بعض لوگوں نے عرض کیا کہ امام مالکؒ تو اس نوع کے مسائل میں خیار کے قائل ہیں،یعنی ان کے نزدیک کفارہ صوم میں روزہ دار کو اختیار ہے چاہے غلام آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے،پھر آپ نے دوماہ کے روزوں پر ہی کیوں اصرار کیا۔ یہ سنکر شیخ یحییٰ نے کتنا حکیمانہ جواب دیا۔ لو فتحنا لہ ھذا لباب سھل علیہ ان یطأ کل یومٍ ویعتق رقبۃ فیہ ولکن حملتہ علی اصعب الامر لئلا یعود [12] اگر ہم نے امیر کے لیے یہ درازہ کھول دیا تو اس کے لیے بہت آسان ہوگا کہ روز مجامعت کرلے اورکفارہ میں کوئی غلام آزاد کر دے ؛لیکن میں نے اس کے لیے مشکل صورت اختیار کی تاکہ آئندہ وہ اس فعل کی جرأت نہ کرے۔
جامعیت
ترمیمشیخ یحییٰ مصمودی کی شخصیت مختلف علمی اخلاقی اورروحانی کمالات کا مجموعہ تھی،ان کے تبحر علمی اورجامعیت کو تمام محققین نے خراج تحسین پیش کیا ہے،ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں: وکان اماماً کثیر العلم کبیر القدر وافرالحرمۃ کامل العقل خیر النفس کثیر العبادۃ والعقل [13] وہ کثیر العلم،عظیم المرتبت اورنہایت ہی محترم ومؤخر امام تھے،ان کی عقل کامل تھی،نفس بہت نیک اوراچھا تھا،زیادہ عبادت کرنے والے تھے۔ احمد بن خالد کا بیان ہے: لم یعط احد من اھل العلم بالاندلس منذ وخلھا الاسلام من الخطوۃ وعظم القدر وجلالۃ الذکر ما اعطیہ یحییٰ بن یحییٰ [14] جب سے اندلس میں اسلام داخل ہوا یہاں کے علما میں سے کسی کو وہ جاہ وجلال اورعظمت وبرتری حاصل نہیں ہوئی جتنی یحییٰ بن یحییٰ (مصمودی) کو حاصل ہوئی۔ ابو الولید ابن الفرضی کا قول ہے کہ یحیی مصمودی امامِ وقت اوریکتائے زمن تھے [15] ابن لبابہ کہتے ہیں کہ "الیہ انتھت الریاسۃ فی العلم بالاندلس" [16] علامہ مقری نے لکھا ہے کہ شیخ یحییٰ کی روایت کو اس قدر مستند سمجھا جاتا تھا کہ: مشرق کے علما بھی اس سے استناد کرتے تھے۔ [17]
جلالتِ شان
ترمیمیحییٰ مصمودی اپنے گونا گون علمی کمالات کی بنا پر جس طرح عوام میں غیر معمولی عزت واحترام سے دیکھے جاتے تھے،اسی طرح خواص میں بھی ان کی بڑی توقیر کی جاتی تھی،حکومت کی جانب سے ان کو بارہا منصب قضاء کی پیشکش کی گئی،مگر انھوں نے پوری شانِ استغناء کے ساتھ اسے نا منظور کر دیا، اس کی وجہ سے ان کی عزت اورمرتبہ میں دو چند اضافہ ہو گیا، حتیٰ کہ سلطان وقت کی نگاہ میں ان کا مرتبہ اس درجہ بلند ہو گیا کہ ان کے مشورہ کے بغیر ملک کا کوئی اہم معاملہ انجام نہیں پاتا تھا،یہاں تک کہ گورنروں کے عزل ونصب میں بھی ان کی رائے کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ ابن القوطیہ کا بیان ہے کہ یحییٰ اپنے بے لاگ عدل وانصاف کی وجہ سے اندلس کے بادشاہوں میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،یہاں تک کہ جب تک وہ زند رہے،اندلس میں کوئی قاضی ان کے مشورہ کے بغیر مقرر نہیں ہوتا تھا۔ [18] علامہ ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی اشاعت قاضی ابو یوسف کے چیف جسٹس ہونے کی بنا پر ہوئی،کیونکہ اس بلند عہدہ اورمخصوص علمی وقار کی وجہ سے اقصائے مشرق سے لے کر اقصائے افریقہ تک صرف وہی لوگ ذمہ دار منصبوں پر فائز کیے جاتے تھے، جو قاضی ابو یوسف کے ہم خیال وہم رائے ہوتے تھے، اسی طرح بلا د اندلس میں مالکی فقہ کی اشاعت یحییٰ مصمودی کے ذاتی اثر ورسوخ کی وجہ سے ہوئی، سلطانِ وقت حکام کے عزل ونصب میں ان ہی کے مشورہ سے کرتا تھا؛چنانچہ وہ عہدوں پر تقرری کے لیے انھیں علما کو ترجیح دیتے تھے،جو امام مالک کے مسلک کے پابند ہوتے تھے۔ [19] علامہ سیوطی نے ابن حزم کے مذکورہ بالا قول کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ بلادِ مغرب میں صرف یحییٰ مصمودی کے روایت کردہ نسخہ مؤطا کے مشہور ومقبول ہونے کا اصل سبب یہی ہے۔ [20]
مسلک
ترمیمجیسا کہ اوپر مذکور ہوا،یحییٰ مصمودی کو امام مالکؒ سے غایت درجہ عقیدت ومحبت تھی،اسی بنا پر وہ مالکی مسلک کی شدت سے اتباع کرتے تھے اور اس سے انحراف کو گوارا نہیں کرتے تھے؛حالانکہ اس زمانہ میں کسی ایک مذہب کی پابندی کا دستور رائج نہ تھا۔ لیکن یحییٰ مصمودی مالکی مسلک کی کامل اتباع کے باوجود چار مسائل میں امام مالکؒ سے اختلاف رکھتے تھے،ان مسائل میں ان کا جداگانہ مسلک یہ تھا۔ 1۔نماز فجر میں قنوت نہیں ہے۔ ۔شاہد مع الیمین اثباتِ حق کے لیے ناکافی ہے،مدعی کو اپنا حق ثابت کرنے کے لیے دو مرد گواہ یا ایک مرد اوردو عورتیں پیش کرنا لازمی ہے۔ 3۔شوہر اوربیوی کے نزاع واختلاف کی صورت میں حکمین کو صلح کرانے کا حق نہیں، مذکورہ بالا مسائل میں وہ لیث بن سعد کے مسلک کے قائل تھے۔ [21]
حلیہ
ترمیمیحییٰ مصمودی شکل وہیئت کے اعتبار سے اپنے شیخ امام مالک سے حد درجہ مشابہت رکھتے تھے،وہی سُرخ سپید رنگ ،بالاقد،بھاری بدن،کشادہ پیشانی،بڑی آنکھیں،اونچی ناک ،گھنی اورلمبی داڑھی تھی۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقمطراز ہیں: دروضع لباس ونشست وبرخاست وہئیت ظاہری نیز تتبع حضرت امام مالک می نمود [22] وضع قطع،اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے ظاہری شکل وصورت اوراتباع میں امام مالکؒ کی ہوبہو تصویر تھے۔ مؤرخ ابن خلکان اورابن فرحون مالکی بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ: وکان قد اخذ فی نفسہ وھئیتہ ومقعدہ ھیئتہ مالک [23] وہ اپنی شکل وصورت اورنشست وبرخاست میں امام مالک کے ہم صورت ومتبع تھے۔
تقوی وطہارت
ترمیمیحییٰ مصمودی علمی فضل وکمال کے ساتھ عملی اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ تھے،نہایت متقی اور پرہیز گار تھے،ابن بشکوال کا قول ہے کہ "وکان مستجاب الدعوات" [24] حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں: وکان یاتی الجامع یوم الجمعۃ راجلا متعمما [25] وہ جمعہ کے دن جامع مسجد عمامہ باندھ کر اورپیدل چل کر آتے تھے۔
وفات
ترمیم22 رجب 234 ھ کو علم و فضل کا یہ خورشیدِ تاباں غروب ہو گیا ،جس نے اپنی ضیاباری سے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ تک اندلس کو منور رکھا [26]اس وقت عمر 82 سال کی تھی [27]ان کی قبر قرطبہ کے قبرستان بنی عامر میں زیارت گاہ خلائق اور مرجع عوام ہے۔[28]
مؤطا نسخہ مصمودی کی خصوصیات
ترمیمشیخ یحییٰ مصمودی کا سب سے بڑا کارنامہ امام مالکؒ کی مؤطا کی روایت وحفاظت ہے،جس نے بلاشبہ انھیں تاریخ علم وفن میں حیاتِ جاوداں عطا کی ہے۔ امام مالکؒ سے یوں تو سیکڑوں لوگوں نے مؤطا کا سماع حاصل کیا ؛لیکن ان سب نے امام صاحبؒ کی مرویات کو محفوظ نہیں کیا صرف سولہ تلامذہ نے اپنی روایت کے مطابق مؤطا کو جمع کیا ہے،جن کے اسمائے گرامی درجہ ذیل ہیں: یحییٰ بن یحییٰ مصمودی، عبد اللہ بن وہب، ابن القاسم، عبد اللہ بن مسلم قعنبی،معین بن عیسیٰ،یحییٰ بن بکیر، سعید بن عفیر،ابو مصعب زہری، مصعب بن عبد اللہ زبیری، سلیمان بن برد، ابو حذافہ اسہمی، سوید بن سعید، امام محمد بن حسن شیبانی،یحییٰ بن یحییٰ التیمی، عبد اللہ بن یوسف دمشقی، محمد بن مبارک مذکورہ بالا سولہ نسخوں میں مشہور اورمتداول صرف دو نسخے ہیں، ایک مصمودی کا دوسرا امام محمد کا،لیکن ان دونوں میں بھی نسخہ مصمودی کو زیادہ شہرت اورمقبولیت نصیب ہوئی،حتیٰ کہ آج ساری دنیا میں مؤطا کا اطلاق نسخہ مصمودی ہی پر ہوتا ہے۔ اسی نسخہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ امام مالکؒ کے وفات کے وقت زیر سماعت تھا؛کیونکہ جیسا اوپر مذکور ہوا،یحییٰ مصمودی نے اس کا سماع امام مالکؒ سے اسی سال کیا جس سال ان کی رحلت ہوئی،اس طرح وہ مؤطا کے تمام نسخوں میں آخری قرار پاتا ہے،اورظاہر ہے،آخری سماع کو مرجح قرار دیا جائے گا۔ دوسری نمایاں خصوصیت اس کی یہ ہے کہ یہ بہت سے ایسے فرعی مسائل پر مشتمل ہے جو باب میں مذکور روایات کے مطابق ہیں،ان خصوصیات کے باوجود یحییٰ مصمودی کی روایت صحاح ستہ میں نہیں پائی جاتی ہیں، اس کا سبب شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے یہ بتایا ہے کہ یحییٰ کی روایات میں اوہام زیادہ ہیں اس لیے وہ کتبِ ستہ میں جگہ نہ پاسکیں۔ [29] بعض محققین مؤطا امام محمدؒ کو نسخہ مصمودی پر کئی وجوہ سے فوقیت دیتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں محدث زاہدالکوثری کی یہ رائے نہایت حقیقت پر مبنی معلوم ہوتی ہے کہ دونوں نسخے اپنی جداگانہ خصوصیات میں باہم دگر فوقیت رکھتے ہیں وہ رقمطراز ہیں: وأشهر رواياته في هذا العصر رواية محمد بن الحسن بين المشارقة ورواية يحيى الليثي بين المغاربة، فالأولى: تمتاز ببيان ماأخذ به أهل العراق من أحاديث أهل الحجاز المدونة في الموطأ ومالم يأخذوا به لأدلة أخرى ساقها محمد في موطئه وهي نافعة جدا لمن يريد المقارنة بين آراء أهل المدينة وآراء أهل العراق وبين أدلة الفريقين، والثانية: تمتاز عن نسخ الموطأ كلها باحتوائها على آراء مالك البالغة نحو ثلاثة آلاف مسألة في أبواب الفقه وهاتان الروايتان نسخهما في غاية الكثرة في خزانات العالم شرقا وغربا۔ [30] اس دور میں مؤطا کی مشہور ترین روایت اہل مشرق میں امام محمد بن حسن کی روایت ہے اوراہل مغرب میں یحییٰ اللیثی کی روایت ہے،پہلی روایت کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں اہل عراق نے مؤطا میں مدونہ جن احادیث اہل حجاز کو لیا ہے اورجن کو دوسرے دلائل کی بنا پر جو امام محمد اپنی مؤطا میں لائے ہیں نہیں لیا ہے،ان کا بیان ہے اوریہ چیز ان لوگوں کے لیے نہایت مفید ہے جو اہل مدینہ اوراہل عراق کے اجتہادی مسائل اورفریقین کے دلائل کا باہم موازنہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسری روایت مؤطا کی تمام روایتوں میں اس حیثیت سے ممتاز ہے کہ وہ تین ہزار کے قریب امام مالکؒ کے ان اجتہادی مسائل پر مشتمل ہے، جن کا تعلق فقہ کے مختلف ابواب سے ہے اوریہ دونوں روایتیں دنیا کے کتبخانوں میں شرقا وغربا نہایت کثرت سے موجود ہیں۔ تاہم آج مؤطا امام مالکؒ کے نام سے جو کتاب بالخصوص ہندوستان میں مروج ہے وہ یحییٰ مصمودی ہی کی روایت ہے اوراسی کی شرحیں زرقانی،ابن عبد البر، سیوطیؒ اورشاہ ولی اللہ وغیر ہم نے لکھی ہیں،یہ بات بجائے خود اس کی مقبولیت اورشہرت کی روشن دلیل ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (ابن خلکان:3/172)
- ↑ (مقدمہ اوجز المسالک:66)
- ↑ (مقدمہ اوجز المسالک :66)
- ↑ (الدیباج المذہب:350،والانتقاء لا بن عبد البر:58)
- ↑ (مقدمہ اوجز:66)
- ↑ (الانتقالا بن عبد البر:58)
- ↑ (تہذیب التہذیب:11/301)
- ↑ (ابن خلکان:3/173ومقدمہ اوجر وغیرہ)
- ↑ (تہذیب التہذیب:11/301)
- ↑ (ابن خلکان :3/172)
- ↑ (الانتقاء لابن عبد البر:59)
- ↑ (شذرات الذہب:2/42)
- ↑ (شذرات الذہب:2/42)
- ↑ (الانتقاء لابن عبد البر:60)
- ↑ (تہذیب التہذیب:11/301)
- ↑ (الدیباج المذہب :351)
- ↑ (نفح الطیب :1/290)
- ↑ (افتتاح الاندلس:58)
- ↑ (بحوالہ بستان المحدثین:11)
- ↑ (تزئین الممالک:56)
- ↑ (الانتقاء لابن عبد البر:60)
- ↑ (بستان المحدثین :13)
- ↑ (ابن خلکان:3/174،الدیباج المذہب:351)
- ↑ (تہذیب التہذیب:11/301)
- ↑ (الانتقاء لابن عبد البر:60)
- ↑ (ابن خلکان:3/144)
- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/419)
- ↑ (ابن خلکان:3/145)
- ↑ (اوجز المسالک:27)
- ↑ (موطأ مالك،رواية محمد بن الحسن:1/13، شاملہ، الناشر: دارالقلم،دمشق)