یونان میں نسائیت نے بیسویں صدی میں اپنی جڑیں مضبوطی سے گہری کیں، انیسویں صدی کے وسط اور بیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ اور آئرلینڈ، ریاستہائے متحدہ امریکا اور باقی دنیا میں نسائیت کے نظریہ کو مقبولیت حاصل ہونے کے فوراً بعد اس تحریک نے ساری دنیا میں سماجی اور سیاسی زندگی میں تبدیلیاں لانا شروع کر دیں۔ یونان میں 1952 میں یونانی خواتین کو ووٹ کا حق ملا[1]۔ تاہم کئی دہائیوں تک مزید تبدیلیاں رونما نہیں ہوئیں۔ یونان نے 1983 میں خواتین کے خلاف نسلی امتیاز کی تمام اقسام کے خاتمے کے کنونشن پر دستخط کیے اور اس کی توثیق کی۔[2][3][4]

ایتھنز جیسے بڑے یونانی شہرمیں خواتین کا معاشرے اور کمیونٹی میں زیادہ اٹوٹ کردار تھا۔ تاہم، سخت پدرانہ روایات دیہی یونان پر حاوی رہیں۔

خواتین کے لیے قانون سازی

ترمیم

یونانی خواتین کی ذمہ داری روایتی طور پر گھریلو کاموں تک محدود تھی۔ چاہے اس نے گھر کا کام کیا ہو یا خاندان کے لیے کھانا پکایا ہو۔گھر یونانی خواتین کی زندگی میں اتنا اہم عنصر تھا کہ لوگ گھر کی صفائی کو اس میں رہنے والی عورت کے کردار سے جوڑ دیتے تھے۔ دیہی علاقے خاص طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کے کردار کے بارے میں قدامت پسند تھے۔ ملز کے مطابق، دیہی علاقوں میں خواتین کے روایتی تصور میں یہ خیال شامل ہے کہ عورت اپنے گھر سے باہر جو وقت گزارتی ہے وہ خاندان کی عزت کے لیے خطرہ ہے۔ یہ تصور بنیادی یونانی عقیدے سے نکلتا ہے کہ مرد کی عزت کا انحصار زیادہ تر اس کی بیوی، بہن اور بیٹیوں کی پاکیزگی اور شائستگی پر ہوتا ہے۔ جہاں تک عائلی قوانین کا تعلق ہے، ایک نیا خاندانی قانون 1983 میں منظور کیا گیا تھا، جس میں شادی میں مرد اور اس کی بیوی کے درمیان مساوات پر زور دیا گیا، جہیز کو ختم کیا گیا اور "ناجائز" بچوں کو برابر حقوق دیے۔ عائلی قانون نے دیوانی بیاہ (سول میرج) کو قانونی حیثیت دی۔طلاق کے قانون کی پابندیوں کو ہٹا دیا اور 1983 میں زنا کو جرم قرار دیا۔ قانون نمبر 3719 برائے 2008 بھی خاندانی مسائل سے نمٹتا ہے، بشمول قانون کا آرٹیکل 14، جس نے علیحدگی کی مدت کو کم کیا (طلاق ہونے سے پہلے ضروری ہے کچھ حالات میں)، چار سال سے دو سال تک۔

جہاں تک بچے پیدا کرنے کا تعلق ہے، خاندان کا حجم اور اس کا مستقبل شوہر کی خواہشات پر منحصر ہے۔ ییانس تنتس(Yiannis Tuntas) اور دوسروں کے ملک گیر مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ یونان میں خواتین کی اکثریت کا خیال ہے کہ پیدائش پر قابو پانے کی ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی ذمہ داری مردوں کے سنبھالنے کی وجہ زیادہ تر منفی جنسی نظریہ ہے، یونانی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ "اس عمل میں کوئی کردار ادا کیے بغیر حاملہ ہوئیں"۔ عورت گھر میں اپنے بچوں کی پرورش اور کھانا کھلانے کی ذمہ دار ہے جبکہ مرد کام پر جاتا ہے، یہ اس کے کرنے کا کام ہے۔ خواتین گھریلو مالیات کا انتظام کرتی ہیں اور اگرچہ بہت سی خواتین باضابطہ طور پر ملازم نہیں ہیں لیکن وہ گھریلو آمدنی کا بجٹ چلاتی ہیں۔

گھریلو تشدد روایتی طور پر ایک ذاتی مسئلہ رہا ہے لیکن حالیہ دہائیوں میں خیالات بدل گئے ہیں۔ 2006 میں یونان نے 2006 کا قانون نمبر 3500 "گھریلو تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے" پاس کیا جو گھریلو تشدد کو جرم قرار دیتا ہے بشمول ازدواجی عصمت دری کے۔

یونان نے 2009 میں بچوں کے جنسی استحصال اور بدسلوکی سے تحفظ کے لیے کونسل آف یورپ کنونشن کی توثیق کی ، یہ پہلا بین الاقوامی معاہدہ ہے جو گھر یا خاندان کے اندر بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے موضوع سے متعلق ہے۔ یونان نے 2014 میں افراد کی اسمگلنگ کے خلاف یورپ کے کنونشن کی بھی توثیق کی۔

  1. Stamiris, Eleni. 1986 The Women's Movement in Greece. New Left Review I. 1(158): 98–112.
  2. "Greece Approves Family Law Changes"۔ The New York Times (بزبان انگریزی)۔ 25 January 1983۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 فروری 2017 
  3. Vasilikie Demos (2007)۔ "The Intersection of Gender, Class and Nationality and the Agency of Kytherian Greek Women"۔ Annual Meeting of the American Sociological Association۔ 25 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 فروری 2017 
  4. Anastasios C. Marcos، Stephen J. Bahr (June 2001)۔ "Hellenic (Greek) gender attitudes"۔ Gender Issues۔ 19 (3): 21–40۔ doi:10.1007/s12147-001-0009-6