یہودیت کے بنیادی عقائد
یہودیت میں اعتقادات کا کوئی باضابطہ قانون نہیں نہ ان کی کوئی باقاعدہ فہرست روز اول سے متعین کی گئی لیکن اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ یہ محض رسمی یا روایتی ہیں بلکہ ان کے ماخذات صحف مقدسہ مندرج احکامات اور واقعات ہیں مثلا توریت وغیرہ[1]
بارہویں صدی کے یہودی عالم، فلسفی اور فارغ ربی موسی بن میمون نے تیرہ اساسی اصول 'شولوشاہ عصر اکارم ' کے نام سے ان تمام توراتی احکامات کو مدون کیا جو عقائد میں بنیادی حیثیت اور اہمیت رکھتے ہیں۔ موسی بن میمون کے نزدیک ”یہ ہمارے مذہب کے وہ اساسی حقائق جن پر تمام مذہبی عقائد و رسوم کی بنیاد ہے“۔[2] ان اعتقادات کو یہودیت میں عقائد کی واضح ترین تشریح کے طور پر قبولیت عام حاصل ہوئی اور آج تک یہودی کتب ادعیہ میں مندرج ہیں۔[1] اگرچہ یہودی ہونے کے لیے ان سب پر اعتقاد و یقین رکھنا لازم نہیں اور ممکنہ طور پر کچھ یہودی اس بارے میں ابہام و سوالات رکھتے ہیں تاہم انھیں مذہب یہودیت کا عمومی روشن خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔[1]
موسی بن میمون نے انھیں اس طرح بیان کیا ہے:۔
1۔ وجود خالق پر اعتقاد جو ہر جہت، سمت اور صفت میں کامل اکمل ہے اور تمام تر موجودات اس کہ رہین منت ہیں۔
2۔ اس کی وحدانیت اور بے مثل ہونے پر اعتقاد۔
3۔ یہ کہ وہ لامکاں و ماورائے مادہ ہے۔ نہ وہ تھکتا ہے نہ کوئی سرگرمی اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
4۔ اس کی ابدیت پر اعتقاد
5۔ صرف وہی لائق عبادت ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں۔
6۔ اس بات پر اعتقاد کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے انبیا کے توسط سے بات کرتا ہے۔
7۔ موسی کی نبوت کاملہ اور ان کے بتائے تمام غیب و شہود پر اعتقاد۔
8۔ تورات کے کلام الہی ہونے پر اعتقاد۔
9۔ تورات کے تحریف و تنقیص سے مبرا ہونے پر اعتقاد۔
10۔ رب العزت کے ہر شے کے علم اور احاطے پر اعتقاد۔
11۔ رب العزت کے سزا و جزا پر قادر ہونے پر یا سزا و جزا من جانب اللہ پر اعتقاد۔
12۔ مسیح اور ان کے دور کے واپس آنے پر اعتقاد
13۔ روز حشر اور مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے پر اعتقاد۔
یہودی ان 13 احکامات یا ادعیہ کو منظوم یا لےے کے انداز ہر صبح سائینا گوگ میں بعد از عبادت پڑھتے ہیں اور آغاز میں ' انی مامن ' کہتے ہیں جس کے معنی ہیں میں ایمان لایا۔ [2]