یہودی میسن سازشی نظریہ
یہودی میسن سازشی نظریہ ایک یہود مخالف اور میسن مخالف سازشی نظریہ ہے جس میں یہودیوں اور فری میسن کے خفیہ گٹھ جوڑ کی بات کی جاتی ہے۔ عموماً یہ نظریات دائیں بازو بالخصوص فرانس، سپین، پرتگال، اٹلی، جرمنی، روس اور مشرقی یورپ میں مقبول ہیں اور آج بھی ان پر الزامات لگتے رہتے ہیں۔
صیہونی بڑوں کے پروٹوکول کی اشاعت کے بعدان پر گہرا اثر پڑا حالانکہ یہ دستاویز روسی بادشاہت کے دور میں یہودیوں کو عالمی سطح پر سازشی ثابت کرنے کے لیے تیار کی گئی تھی۔اس دستاویز کے مطابق یہودیوں نے فری میسن کی تنظیم پر خفیہ تسلط قائم کر لیا ہے اور اب اس تنظیم کو اپنے مقاصد لیے چلا رہے ہیں۔ ان سازشی نظریات کے حامی افراد اس بات کی ترویج پر بہت زور صرف کرتے ہیں کہ فری میسن بڑے اور یہودی ایک ہی ہیں۔
اس کی ایک مثال ایک ہسپانوی پادری کی ہے جس نے ان پروٹوکولز کا ترجمہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہودیوں نے فری میسن اور کمیونسٹ کو استعمال کر کے عیسائیت اور ہسپانوی تہذیبوں کو نیچا دکھایا اور فرانسیسی غلبے کے لیے راہ ہموار کی۔
نظریاتی اثر
ترمیمڈینی کیرن (حیفہ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس شعبے کے رکن) کا خیال ہے کہ 1797 کے معاہدے سے یہ سازشی نظریہ پیدا ہوا تھا۔ متذکرہ بالا معاہدہ فرانسیسی پادری آگسٹن بیرول نے تیار کیا تھا اور اس کے مطابق انقلاب دراصل فری میسن کی کاوش سے ہوا تھا جو رومن کیتھولک چرچ کی اخلاقی تعلیمات کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔ اصل معاہدے میں یہودیوں کے بارے کوئی بات نہیں کی گئی تھی کہ انقلاب سے یہودی آزاد ہوئے تھے۔ 1806 میں اسی پادری کو شاید نپولن بونا پارٹ کی پولیس کے کسی افسر کا بنایا ہوا جعلی خط ملا جس میں فری میسن کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی انقلاب سے جوڑا گیا تھا۔ یہودیوں کی بین الاقوامی سازش سے متعلق یہ نظریہ بہت مقبول ہوا ارو 18ویں صدی میں پولینڈ اور جرمنی میں بھی پھیل گیا۔
برٹش کولمبیا اور یوکون کے گرینڈ لاج کی ویب گاہ پر درج ہے: ‘یہ کہنا بہت آسان ہے کہ انقلابِ فرانس فری میسن نے برپا کرایا تھا۔ تاہم حقیقت اتنی سی ہے کہ فری میسن انفرادی طور پر ایک نئے معاشرے کی تیاری میں مصروف رہے تھے۔ اُس دور میں بہت ساری تنظیمیں خود کو فری میسن کہلاتی تھیں اور آج یہ کہنا دشوار ہے کہ یہ سب مل کر ایک ساتھ کام کر رہی تھیں اور نہ یہ کہنا ممکن ہے کہ یہ تنظیمیں ایک دوسرے کے کاموں سے آگاہ تھیں۔ ہاں ان کے کچھ عقائد اور مقاصد ضرور مشترک تھے۔‘
ویسے بھی اُس دور میں فرانسیسی فری میسنری بہت محدود تنظیم تھی اور یہودیوں اور معاشرے کے دیگر طبقات کو الگ ہی رکھتی تھی۔
بیر ڈومویل اور دی لنک
ترمیمریٹائرڈ امیر البحر یعنی ایڈمرل بیری ڈومویل نے برطانوی نازی تنظیم بنائی جس کانام دی لنک تھا۔ اس بندے نے جوڈماس اصطلاح متعارف کرائی جو یہودی اور فری میسن کے مشترکہ سازشی نظریات کو ظاہر کرتی تھی۔ ڈومویل نے دعویٰ کیا کہ ‘جوڈماس کی سرگرمیاں یہودیوں اور فری میسن کے چھوٹے سے گروہ تک محدود ہیں: بڑی اکثریت کو اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں۔‘ ڈومویل نے کہا کہ ‘اس تنظیم کا مقصد دنیا کو پیسے کی طاقت سے جھکائے رکھنا اور اپنے یہودی آقاؤں کے لیے کام کرتے رہنے پر مجبور کرنا ہے۔‘ اور یہ بھی کہ ‘فری میسن کا کام یہودیوں کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانا ہے‘۔ ڈومویل کا کہنا تھا کہ اس نے ہٹلر سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا۔ ڈومویل نے صیہونی بڑوں کے پروٹوکول اور ‘انقلاب کے پیچھے چھپے راز‘ نامی کتاب کا بھی حوالہ دیا۔ ڈومویل کو علم تھا کہ صیہونی بڑوں کے پروٹوکول جعلی دستاویز ہے مگر اس کا استدلال تھا کہ یہ بات غیر اہم ہے کہ انھیں کس نے لکھا۔
سوویت روس کے بعد
ترمیمیہودی میسن سازشی نظریات کو سوویت روس کے انہدام کے بعد کچھ سیاسی حلقوں میں پزیرائی ملی ۔ مرگِ انبوہ کی تردید اور یہودیوں پر یہ الزم کہ وہ اپنی مذہبی رسومات میں عیسائی بچوں کے خون کو استعمال کرتے ہیں بھی ان حلقوں میں اہمیت رکھتے ہیں۔ 1990 میں ایک سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق ماسکو کے 18 فیصد شہری مانتے ہیں کہ صیہونی روس کے خلاف سازش کرتے ہیں جبکہ مزید 25 فیصد اس بات کے امکان کو رد نہیں کرتے ہیں۔