سُلکی (انگریزی: Sulki) ساہیوال سے فروکہ جاتے ہوئے اڈا شاہدرہ کے مقام پر سُلکی قصبہ آباد ہے جو فروکہ کے بالکل قریب ترین قصبہ ہے۔اسی قصبہ سے گذر کر مچھر کھادی اور دوسرے دیہاتوں کو بھی رستہ جاتا ہے۔اس کا شمار قدیم ترین قصبوں میں ہوتا ہے جس کی آبادی 8یا 9 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔1857ءکے زمینوں کے ریکارڈ کے مطابق سُلکی خاندان کو اُس وقت کے لحاظ سے اڑھائی سوسال قبل مغل حکمرانوں نے آباد کیا۔کیچ مکران سے سُلکی خان نامی رند قبیلے کا سردار اپنے قبیلہ کے ہمراہ تقریباً 4سوسال قبل ساہیوال سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرفروکہ کے قریب آباد ہوا اور اُن کے خاندان کے لوگ اب بھی یہیں آباد ہیں۔اُن کے ساتھ کیچ مکران سے سوائے اُن کے اپنے قبیلے کے کوئی دوسرا خاندان نہیں آیاجیسا کہ عام طور پر سردار قبیلہ کے افراد اپنے ساتھ کام کاج کرنیوالوں رکھتے ہیں۔یہ ایک قدیم قصبہ ہے لیکن کچی آبادیاں ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی ایسی عمارت موجود نہیں ہے جس سے اس گاؤں کے بہت زیادہ قدیم ہونے کی تصدیق ہوتی ہو لیکن سُلکی خاندان کے افراد کے پاس اُن کا شجرہ اور زمینی ریکارڈ موجود ہے جس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ قصبہ حقیقت میں اتنا ہی قدیم ہو گا۔اس قصبہ کی سب سے قدیم مسجد علی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ڈیڑھ سو سال قبل تعمیر کی گئی اُس کی تعمیر کے کچھ ہی عرصہ بعد یہاں مسجد عمر تعمیر ہوئی لیکن دونوں مساجد کی عمارتیں شہید کر کے نئی عمارتیں تعمیر کردی گئیں جس کی وجہ سے کسی بھی پرانی عمارت کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔یہاں کی آبادی کے لحاظ سے آج بھی سُلکی یا رند بلوچوں کا خاندان سب سے بڑا ہے۔جب کہ اُن کے ساتھ کچھ کام کاج کرنیوالے مقامی لوگ ابتدا سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ بلوچوں کے علاوہ بڑے خاندانوں میں سے قریشی خاندان تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل یہاں آباد ہوا۔ابتدائی دور میں آبادی کا پھیلائو اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن جب1973ء میں سیم بنائی گئی تو بہت سے خاندان یہاںآکر آباد ہوئے ۔

سُلکی خاندان کے مطابق اُن کے خاندان کا شجرہ چاکراعظم سے جاکر ملتا ہے یعنی وہ چاکر اعظم کی اولاد ہیں جبکہ مچھر کھادی کا ایک بلوچ خاندان بھی رند قبیلہ سے ہے جس کا شجرہ کئی پُشتوں سے جاکر اُن سے ملتا ہے۔فروکہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے امام مسجد کا خاندان بھی مساجد کی تعمیر سے اب تک یہیں آباد ہے جبکہ سادات خاندان کو بھی یہاں آباد ہوئے 70سال ہو گئے ہیں۔

1857ء تک رند خاندان نے اپنی ثقافت قائم رکھی وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی ثقافت کے ساتھ ڈھلنے لگے اور صرف ثقافتی لباس کی حد تک محدود ہوکر رہ گئے بالاخر 1904 کے بعد انھوں نے اپنے خاندانی لباس پہننا بھی ترک کر دیااور یہاں کے ثقافتی کلچر کو مکمل طور پر اپنا لیا۔

سُلکی کے لوگ ذریعہ روزگار کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ چند ایک دُکانیں ہیں اور ایک پٹرول پمپ موجود ہے۔یہاں آباد بلوچوں کے مطابق 1947ءتک ہندئوں کی 2 دُکانیں تھیں جو انھوں نے یہاں کے رند قبیلے سے مستعار لے رکھی تھیں لیکن جب تقسیم ہند ہوئی تو وہ دُکانیں غیر آباد ہوگئیں اور پھر  پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں نے چند ایک دُکانیں آباد کیں ۔

یاد رہے کہ والی بال کے معروف کھلاڑی الطاف ملاح کا تعلق بھی اسی قصبہ سلکی سے ہے وہ پاکستان کے مایہ ناز کھلاڑی مانے جاتے ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم

ہفت روزہ سجود ساہیوال ضلع سرگودھا

حوالہ جات

ترمیم