آئشم نیطس
Aesymnetes (یونانی: αἰσυμνήτης,لفظ αἶσα سے ، aisa, ایک "مناسب حصہ", یعنی "ایک شخص جوسب کو اُن کا مناسب حصہ دیتا ہے ")، ایک قدیم یونانی منتخب عہدہ ہوا کرتا تھا، بہت سی جگہوں پر اس اصطلاح میں اور لفظ ’’ ظالم‘‘ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتاہے ۔[1] ااس اصطلاح کی جمع لفظ aesymnetai ہے۔
اس وجہ سے Theophrastus اسے τυραννίς αιρετή ("انتخابی ظلم")کہتا ہے، اورDionysius اسکاموازنہ روم میںآمریتکے ساتھ کرتاہے .[4] یہ دفترموروثی نہیں تھا، لیکن تعیناتی کبھی کبھارتا حیات ہوتی تھی اور کبھی مقصد پورا ہونے تک ہوتی تھی , مثلا مختلف ریاستی دھڑوں میں مصالحت کی حد تک۔ تاریخ میں واضع طور پر ایسے صرف ایک واقع کا اندراج ہے،Pittacusجس کو Mytilene,[5] میں تعینات کیا گیا تھا وہ بھی صرف اس لیے کہ اُن دنوں ریاست مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی اوربیطاکس اپنی عقلمندی، دانشوری اور قوانین کے نفاذ کی وجی سے اتحاد اور امن کی بحالی میں کام یاب ہو گیا۔[4][6][7][8][9]
تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ، جن لوگوں نے بھی اس عہدے پر مختلف یونانی ریاستوں میں کام کیا اور Dracon, Solon, Zaleucus اور Charondas جیسے قبانون دانوں میں بہت زیادہ آپسی مماثلت ہے۔ Cyme اور Chalcedon، کی ریاستوں میں تو یہ عہدہ باقاعدہمجسٹریٹ حضرات استعمال کرتے تھے۔
ارسطو کے مطابق یہ عہدہ ان لوگوں کے خدشہ کی وجہ سے ختم کرنا پڑا جوکام ختم ہوجانے کے باوجود کرسی چھوڑنے پر رضامند نہ ہوتے تھے، اس لیے یونانی ریاستوں نے اس عہدے کو معدوم ہونے دیا۔[10][11]
مزید دیکھیے
ترمیم- انتخابی آمریت - پارلیمانی حکومت میں ایک متشابہہ نظریہ
حوالہ جات
ترمیم- ↑ William Smith (1870)۔ "Aesymnetes"۔ $1 میں William Smith۔ Dictionary of Greek and Roman Antiquities۔ 1۔ صفحہ: 27۔ 07 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2016
- ↑ Aristotle, Politics iii. 9. § 5, iv. 8. § 2
- ↑ Hesych. s. v.
- ^ ا ب Dionysius of Halicarnassus, v. 73
- ↑ Ehrenberg، Victor (1973)۔ From Solon to Socrates: Greek History and Civilization During the Sixth and Fifth Centuries B.C.۔ روٹلیج۔ ص 24–25۔ ISBN:0-415-04024-8
- ↑ Strabo, xiii. p. 617
- ↑ Plutarch, Solon 4
- ↑ Diogenes Laërtius, i. 75
- ↑ Plehn, Lesbiaca, pp. 4 6,48
- ↑ Aristotle, Politics 1285a, 31
- ↑ ارسطو؛ William Lambert Newman (1902)۔ Politics۔ Harvard University Press۔ ص 268–269