آتما ہندو مت میں ذات نوع انسانی کا ارفع ترین حصہ؛ کونیاتی ذات جو نہ صرف اس کرہ ارض پر موجود ہر جاندار اور شے کے اندر بستی ہے بلکہ باقی سب ستاروں اور اجزام فلکی میں حلول کیے ہوئے ہے۔ احساس اور علم دونوں حوالوں سے یہ عرفان ”میں ہوں “ کے مساوی ہے۔ یوں اسے ذات کا مجرد تصور خیال کیا جا سکتا ہے۔ عرفان ذات کے مدارج سے قطع نظر پوری کائنات میں اسی کی ماہیت ایک سی ہے۔ ہم اپنے عہد کے اعتبار سے ارتفاع کے ساتوں درجے پر ہیں۔ لیکن آتما عالمگیر ہونے کے باوجود چوتھے درجے پر ہے۔

انسان کی خورد کائنات میں آتما کو میں جاری و ساری first-Logos کا درجہ حاصل ہے آتما مجسم صورت اختیار کرتے ہوئے اپنے مدارج سے کم ترین پر ہوتی ہے۔ کیوں کہ جسم کا تعلق بدہی سے، بدہی کا من سے اور من کا نفسیاتی خواہش سے ہے۔

ہر منفرد شعور کے لیے آتما کائنات میں ظہور کا ایک طریقہ ہے۔ یوں روح ہمیں کائناتی سلسلہ مدارج Hierarchy میں داخل کرتی ہے۔ اس لیے روح کو ہماری اصل ذات کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے واسطہ سے آسمانی قوتیں نچلی سطح ظہور پزیر ہو کر سات اصولوں کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ یوں ’روح انفرادی ملکیت نہیں رہتی ہے بلکہ وہ جوہر ہے جو جسم سے ماورا ہے ‘ غیر مرئی اور ناقابل تقسیم ہے ‘ جس کی کوئی شکل نہیں ‘ فکر و فہم سے بالا تر ہے۔ غیر مرئی اور ناقابل تقسیم ہے ‘ جس کا وجود ہی نہیں لیکن وہ موجود ہے۔ یعنی وہی کچھ جو بدہوں کے نذیک نروان ہے۔ جسم میں داخل ہوکر اس پر حاوی ہوجاتی ہے اور اپنا اظہار بدہی سے خارج ہونے والی شعاع کی صورت میں کرتی ہے اور روح اس منبع بھی۔

آتما کو بعض اوقات کائناتی ذات یا روح کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جسے برہما یا پر ماتما بھی کہا جاتا ہے۔ تین ارفع اصول ہیں جو فرد کائنات سے منسلک رکھتے ہیں۔ یہی اصول روح کا ارفع ترین وظیفہ بھی ہیں۔ انسانی اصولوں میں آتما کار فرما ہے۔ کیوں کہ بدہی کا کائناتی مطلق جوہر ہے، جس میں سے بدہی نکل کر انسان کے باقی اصولوں کو جنم دیتی ہے۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. منو دھرم شاشتر۔ گلوسری (کشاف اصطلاحات ٰ) ترجمہ ارشد رازی