آدم خان اور درخانئی پشتو ادب کے دو رومانوی کردار ہیں جنہیں پشتو کا رومیو اور جولیٹ بھی کہا جاتا ہے۔[1]عرب کے لیلی مجنوں ، فارس کے شیریں فرہاد ، پنجاب کے ہیر رانجھا ، سندھ کے سسی پنوں کی طرح آدم خان درخانئی کی رومانوی داستان پشتو ادب کا کلاسیک شاہکار ہے۔

لوک رنگ

ترمیم

"جو شخص آدم خان کے مزار کے درخت سے لکڑی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے کر اسے مضراب کے طور پر استعمال کرے وہ فوراً رباب بجانا سیکھ لیتا ہے۔" یہ وہ الفاظ ہیں جن پر کئی لوگوں کا ایمان اور یقین ہے اور وہ واقعی ایسا کرتے ہیں۔ خدا جانے اس میں حقیقت کہاں تک ہے لیکن اس بات سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ آدم خان کا رباب سے واقعی کوئی والہانہ تعلق تھا۔ پشتونوں کے رومانوں میں آدم خان اور درخانی کے قصے کو بلند ترین درجہ حاصل ہے۔ اس رومان نے نرگس اور رومانوں کے دیس سوات میں جنم لیا۔[2]

ادبیات

ترمیم

مشہور انگریز محقق راورٹی اور ایک دوسرے مورخ الفنسٹن نے بھی اپنی کتاب میں اس رومان کا ذکر کیا ہے۔ اس رومان کو عبد القادر خان خٹک (1062ھ تا 1118ھ) جو خوش حال خان کا بیٹا اور ایک بلند پایہ شاعر تھا ، برھان خان (1100ھ تا 1174ھ)، ملا نعمت الله نوشہروی ( 1856ء تا 1929ء) اور سید ابوعلی شاه نے پشتو میں نظم کیا۔ مسعود احمد خان اور شوکت اللہ خان اکبر نے اسے پشتو نثر میں لکھا، مسعود خان کا زمانہ 1000ھ کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ آدم خان اور درخانئی کا رومان اس کی زندگی میں گذرا۔ چنانچہ مسعود خان نے آدم خان کی وفات پر یہ مرثیہ لکھا :

"صد افسوس آدم خان اس جہان سے چل دیا اس کے فراق میں ساری دنیا گریاں ہے۔ اس نے جل کر اپنے سر پر خاک ڈال دی ، یہ منحوس دھواں آسمان تک چلا گیا۔ ہوا اب تک ٹھنڈی آہیں بھرتی ہے۔ اور دنیا میں مضطرب اور سرگرداں پھر رہی ہے۔ “[3]

“پختانہ شعرا“ میں آدم خان اور درخانی کو بطور شاعر پیش کیا گیا ہے غالبا اس رومان کا تعلق شہنشاہ اکبر کے زمانے سے ہے۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. The Bazaar of the storytellers (1986) Wilma Louise Heston, Mumtāz Naṣīr Lok Virsa Pub. House, Original from the University of Michigan
  2. مقالہ از خاطر غزنوی
  3. دیوان مسعود
  4. آدم خان درخانئی مصنف سید ابوعلی شاہ