آزادانہ محبت ایک سماجی تحریک کا نام ہے۔ اس تحریک کا مقصد ہر قسم کی محبت کو قبول کرنا تھا۔ آزادانہ محبت کا ابتدائی مقصد مملکتوں کو جنسی معاملات سے دور کرنا تھا۔ ان معاملوں میں شادی، ضبط حمل اور زنا شامل ہیں۔ تحریک کا دعوٰی تھا کہ ان معاملوں پر فکر کی ضرورت شامل لوگوں کو ہے، دوسروں کو بولنا نہیں چاہیے۔[1]

اصول ترمیم

آزادانہ محبت کی روایت کا بیش تر حصہ حریت پسندانہ فلسفے کی عکاسی کرتا ہے جو ریاستی داروگیر سے آزادی چاہتا ہے اور گرجا کی جانب سے انفرادی رشتوں میں مداخلت کا مخالف ہے۔ اس تصور کی رو سے بالغوں کا آزادانہ اختلاط قانونی رشتہ ہے جسے سبھی تیسرے فریقوں کی جانب سے عزت کی نظروں سے دیکھا جانا چاہیے بھلے ہی یہ تعلقات جذباتی ہوں یا جنسی نوعیت کے ہوں۔ اس کے علاوہ کچھ آزادانہ محبت کی تحریروں میں یہ جواز بھی موجود ہے کہ عورتوں اور مردوں، دونوں کو جنسی لذت کا حق حاصل ہے جس میں کوئی سماجی یا قانونی بندش شامل نہ ہو۔ وکٹوریائی عہد میں یہ ماورائے زمانہ تصور سمجھا جاتا تھا۔ بعد کے دوروں میں ایسے حالات شامل ہوتے گئے جو آزادانہ محبت کو انقلابی سماجی تبدیلی سے جوڑتے گئے اور اسے مخالف اقتدار پسندی کا نقیب اور مخالف ظلم و استبداد سمجھا جانے لگا۔[2]

جدید احوال کی بازگشت میں سابق کا متوسط امریکی طبقہ یہ چاہتا تھا کہ گھر غیریقینی دنیا میں گھر استقلال کی جگہ بنا رہے۔ اس ذہنیت کی وجہ سے شدت سے لکھے گئے مردوخواتین کے رول موجود ہیں جو آزادانہ محبت سے متصادم اقلیتی رد عمل پیش کر چکا ہے۔[3]

اگرچیکہ آزادانہ محبت کی اصطلاح عمومًا جنسی بے راہ روی سے مربوط کی جاتی ہے، جیسا کہ عوام الناس کے تصورات میں پایا جاتا ہے۔ یہ بات خاص طور پر 1960ء کی ہم منصب ثقافت میں اور 1970ء کے دہے میں دیکھی گئی۔ تاہم تاریخی طور پر آزادانہ محبت نے ہمہ جنسی ساجھے داروں یا مختصر مدتی جنسی تعلقات کی کبھی وکالت نہیں کی ہے۔ اس کے بر عکس یہ دعوٰی کیا گیا ہے کہ جنسی تعلقات جو آزادانہ طور پر قائم ہوتے ہیں، ان پر قانونی گرفت نہیں ہونی چاہیے۔

جنسی انقلابی کی اصطلاح آزادانہ عاشق کے لیے متبادل اصطلاح کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اسی اصطلاح کو وکلا ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ "آزادانہ محبت" کی اصطلاح میں کئی منفی پہلو موجود ہیں۔[حوالہ درکار] چاہے جو بھی نام استعمال کیا جائے، وکلا کے دو طاقتور افکار تھے : اس بات کی مخالفت کہ جبری طور پر جنسی کارروائی انجام پائے اور اس بات کی وکالت کہ ایک عورت اپنے جسم کو اپنی مرضی کے حساب سے بہ روئے کار لا سکتی ہے۔[4]

آزادانہ محبت تحریک پر اثرانگیز ہونے والی فکروں میں ایک یہ بھی ہے جو غیر شادی شدہ جوڑوں کو ساتھ رہنے سے روکتی ہے اور دیگر وہ جو زنا اور طلاق، اس کے علاوہ رضامندی کی عمر، ضبط حمل، ہم جنس پسندی، اسقاط حمل اور کبھی کبھی قحبہ گری؛ حالانکہ آزادانہ محبت کے سبھی حامی ان باتوں سے متفق نہیں ہیں۔ شادی میں انفرادی حقوق کا سلب ہونا بھی ایک فکر کا سبب ہے — مثلًا کچھ قوانین کی رو سے ازدواجی آبروریزی کو جرم نہیں مانا جاتا یا اسے اتنا سنجیدہ نہیں سمجھا جاتا جیسے کہ غیر ازدواجی آبروریزی کا معاملہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے آزادانہ محبت کے حامی اس بات کی بھی پرزور وکالت کرتے آئے ہیں کہ کلھلے عام جنسیت پر بحث کی جا سکتی ہے اور فحاشی کے قوانین کے خلاف محاذ آرائی کی ہے۔

بیسویں صدی کے گزرنے کے دوران کچھ آزادانہ محبت کے حامی شادی پر ہی تنقید کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک سماجی ذریعہ ہے جو جذبات کی ملکیت اور نقسیاتی غلامی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔[حوالہ درکار]

حوالہ جات ترمیم

  1. McElroy, Wendy. "The Free Love Movement and Radical Individualism." Libertarian Enterprise .19 (1996): 1.
  2. Dan Jakopovich, Chains of Marriage, Peace News آرکائیو شدہ 14 مئی 2011 بذریعہ وے بیک مشین
  3. Spurlock, John C. Free Love Marriage and Middle-Class Radicalism in America. New York, NY: New York UP, 1988.
  4. Passet, Joanne E. Sex Radicals and the Quest for Women's Equality. Chicago, IL: U of Illinois P, 2003.