صحافی ، بلوچی و براہوئی ادیب

عبد الواحد آزاد ولد میر خان جان جمالدینی 1912ء میں قریہ جمالدینی تحصیل نوشکی میں پیدا ہوئے۔ میرخان جان ملیشیاء میں آفیسر تھے انھوں نے اپنے بیٹے کو ابتدائی تعلیم کے لیے گاؤں کی مسجد میں قرآن شریف کی تعلیم کے لیے داخل کیا پھر پرائمری اسکول نوشکی میں داخل کیا پرائمری تعلیم کے بعد آزاد نے میٹرک گورنمنٹ سنڈیمن ہائی اسکول کوئٹہ سے کی پھر مڈل اسکول نوشکی میں استاد مقرر ہوئے ۔ تحریک آزادی سے دلچسپی کی وجہ سے فرنگی سرکار کی نوکری چھوڑ دی اور اپنا ذاتی کاروبار کرنے لگے پھر دیما روک اولس ادبی تنظیم کے ارکان بنے اور بلوچی اور براہوئی زبان میں شاعری کرنے لگے ۔ اس دوران کراچی چلے گئے اور وہاں سے 1956ء میں کراچی سے بلوچی کے نام سے ایک بلوچی اور براہوئی زبان کا رسالہ جاری کیا۔1958ء میں گرفتار کیا گیا اور قلی کیمپ میں رکھا لہذا بلوچی بند ہو گیا۔جیل سے آزادی کے بعد ایک عرصہ ایران اور خلیجی ممالک میں رہے۔ 1969ء میں ایک دوست کے ہاں مہمان تھے اپنا سامان وہاں رکھا تھا کہ وہ سامان گم ہو گیا۔جس میں ان کا بلوچی اور براہوئی کا کلام بھی موجود تھا۔ ان کی ساری کی ساری تخلیق گم ہو گئی 1974ء کو وطن واپس لوٹے 1975ء میں کوئٹہ سے ( بلوچی) رسالہ جاری کیا جس میں براہوئی اور بلوچی کا کلام شامل ہوتا تھا ۔ کچھ عرصے بعد گلے کا کینسر ہو گیا کافی علاج کرایا لیکن کوئی آفاقہ نہیں ہوا اور آخر کار 1981ء کو یہ جہاں چھوڑ گئے۔ان کا بلوچی شاعری کا مجموعہ ( مستیں توار) 1952ء میں شائع ہو تھا۔دوسرا مجموعہ( نوکین توار ) غم ہو گیا تھا۔ان کے بھائی میر عبداللہ جان جمالدینی ایک انسان دوست دانشور اور بلوچی و براہوئی کے نامور عالم تھے۔ آزاد جمالدینی کا بلوچی عبدلواحد بندیگ شائع کرتے رہے،

حوالہ جات

ترمیم

ڈاکٹر عبد الرشید آزاد