آنچل
آنچل دوپٹے کا کنارہ، اوڑھنی کا پلو، دامن کا کنارہ یا گھونگھٹ ہوتا ہے۔[1][2] برصغیر پاک و ہند میں زمانہ قدیم سے ہی طبقہ نسواں میں آنچل کی بڑی اہمیت رہی ہے،کہ یہ خواتین کے بنیادی لباس کا اہم ترین حصہ ہے۔پہلے زمانوں میں خواتین ہمیشہ سر ڈھانپ کر رکھا کرتی تھیں، بلکہ اپنے لباس کو سر پر اوڑھے جانے والے دوشالے سے ڈھانپے رکھا کرتی تھیں، دوشالے ، چادر اور دوپٹے کے ساتھ آنچل خواتین کے لباس میں اہمیت اختیار کر گیا۔ اور اس سے کئی رسمیں ، محاورے اور اشعار وابستہ ہو گئے۔
رسمیں
ترمیمآنچل ڈالنا
ترمیمیہ ایک رسم ہے ، جب دولہا سسرال میں جا کے سلامیوں پے بیٹھتا ہے یا آرسی مصحف کے لیے تو دولہا کی بہنیں اپنے اپنے دوپٹے کا آنچل دولہے کے سر پر پھیلا دیتی ہیں، اس رسم کو آنچل ڈالنا کہتے ہیں۔ اس سے مراد ہے کہ بہنیں بڑی دعاؤں اور عزت سے دولہا کو بیاہنے آئی ہیں۔ دولہا ان کے آنچلوں کی آبرو رکھے گا اور اس تقریب کا احترام سدا اس کے ذہن میں موجود و محفوظ رہے گا وہ ان آنچلوں کی لاج میں اپنی دلہن سے حسن سلوک کرے گا اور بہنوں کی دعاؤں سے دولہا دلہن خوشگوار زندگی بسر کریں گے۔
آنچل پر نماز پڑھنا
ترمیمشادی بیاہ کی رسم ہے۔ جب دلہن وداع ہو کر سسرال آتی ہے تو اپنے کمرے میں جا کر دولہا اپنی دلہن کا دوپٹہ اس طرح پھیلاتا ہے کہ آدھا دلہن کے سر پر رہے اور آدھا زمین پر تو اس زمین پر پڑے آنچل پر دو رکعت نفل ادا کرتا ہے شادی کا شکرانہ اور مستقبل کی خوشگواری کے لیے دعا کرتا ہے۔ [3]
محاورے
ترمیم- آنچل نظر نہ آنا — بی بی کا انتہائی با پردہ ہونا کہ اس کے ستر کو ڈھانپنے والے دوشالے کا کنارہ کسی کو نظر نہ آنا۔
- آنچل اٹھانا — کسی سے پردہ ترک کرنا
- آنچل میں بندھنا — کسی کے ساتھ انتہائی دوستی یا قرابت ہونا، ویسے زن مرید شوہروں کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔
اشعار
ترمیم- آنچل اس دامن کا ہاتھ آتا نہیں
- میر دریا کا سا اس کا پھیر ہے[4]
- اودے اودے سحاب سے آنچل
- رنگ کی جالیوں نے مار دیا[5]
- ہاتھ سبھی کے کالے ہیں نظریں سب کی پیلی ہیں
- سینہ ڈھانپ دوپٹے سے سر کو آنچل دے مالک[6]
اہمیت
ترمیمآنچل کو طبقہ نسواں میں شرم و حیا اور عفت اور پاکیزگی کی اہم ترین علامت سمجھا جاتا ہے اور اسے کی اہمیت لباس کے ایک مستقل اور اہم ترین جزو کی ہے۔ معاشرے میں آنچل کو احترام اور تقدس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔