ابرار حسن کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نامور پاکستانی وکیل ہیں۔ ان کی کمپنی، ابرار حسن اینڈ کمپنی سنہ 1962ء سے وکالت کے پیشے میں فعال ہے۔ ابرار حسن اکثر ٹی وی کے مباحثوں میں منشور، پاکستان کی سیاسی تاریخ اور حکومتی اداروں کے درمیان طاقت کے توازن پہ بات کرتے نظر آتے ہیں۔ ابرار حسن 10 جولائی 1935ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جامعہ کراچی سے قانون کی ابتدائی سند حاصل کی۔ انھوں نے امریکی جامعہ جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے جورس ڈاکٹر کی سند بھی حاصل کی ہے۔ بیلجیم کی بین الاقوامی عدالت برائے تملیک نے ابرار حسن کو پاکستان میں اپنا وکیل نامزد کیا ہے۔ ابرار حسن نے قانون کے موضوعات پہ کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی کئی تصانیف پاکستان کے قانون پڑھانے والے کالجوں میں نصاب کا حصہ ہیں۔ ابرار حسن پاکستان اکیڈمی آف جیورسٹس نامی فلاحی ادارے کے بانی ہیں۔ یہ ادارہ محافل اور مناظروں کے ذریعے عام لوگوں میں قانون کے بارے میں شعور بلند کرنے کا کام کر رہا ہے۔ ابرار حسن جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں انسانی حقوق کے موضوع پہ منعقد کی جانے والی مختلف کانفرینسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ ابرار حسن وکلا کی سیاست میں بھی متحرک رہے ہیں۔ وہ سنہ 1973ء میں کراچی بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر، سنہ 1979ء میں کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر، سنہ 1984ء میں سندھ بار کونسل کے نائب چئیرمین، سنہ 1993ء اور 1994ء میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مجلس عاملہ کے رکن اور سنہ 2006ء میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ ابرار حسن تدریس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے کراچی کے اسلامیہ لا کالج میں پڑھایا ہے اور سنہ 1997-1998ء میں کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ جب جرنل پرویز مشرف نے نومبر 2007ء میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تو بہت سے وکلا قائدین کے ساتھ ابرار حسن بھی جیل میں بند کر دیے گئے۔ قید کے ابتدائی دنوں میں انھیں اپنے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے پاکستانی حکومت نے بہت سے وکلا کے ساتھ ابرار حسن کو بھی 19نومبر 2007ء کے دن رہا کر دیا۔

بیرونی روابط ترمیم

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بے جا برطرفی پہ ابرار حسن کا تبصرہ، ویڈیو*ابرار حسن کا ایک انٹرویوآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ jang.com.pk (Error: unknown archive URL)*جنرل پرویز مشرف کے وردی اتارنے پہ ابرار حسن کا تبصرہ