ابراہیم بن یزید تیمیؒ ' کوفہ کے عابد وزاہد تابعین میں تھے.

ابراہیم بن یزید تیمی
معلومات شخصیت
وفات سنہ 713ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
واسط   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات قید خانہ   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد Yazid ibn Xurayk   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

ابراہیم نام،ابواسماء کنیت،نسب نامہ یہ ہے،ابراہیم بن یزید بن شریک بن تیم الرباب تیمی،ابراہیم کوفہ کے عابد وزاہد تابعین میں تھے۔

فضل وکمال ترمیم

فضل وکمال کے لحاظ سے کوئی ممتاز شخصیت نہ رکھتے تھے،تاہم کوفہ کے علمائے باعمل میں شمار تھا۔[1]

حدیث ترمیم

حافظ ذہبی انھیں حفاظ میں شمار کرتے ہیں،حدیث میں انھوں نے انس بن مالکؓ ،حارث بن سوید،عمروبن میمون اوراپنے والد یزید سے استفادہ کیا تھا،حضرت عائشہؓ سے بھی روایت کی ہے؛لیکن یہ روایت مرسل ہے،بیان بن بشیر،حکم بن عتبہ،زبید بن حارث ، مسلم البطین اوریونس بن عبید وغیرہ ان کے زمرہ تلامذہ میں ہیں۔[2]

زہد وعبادت ترمیم

ان کا امتیازی وصف زہد وتقویٰ ہے،ان کے والد یزید بنؓ شریک بڑے عابدوزاہد تابعی تھے،انھوں نے بڑی دولت پیدا کی،لیکن دنیا سے کبھی آلود نہ ہوئے،ان کے لباس تک پر ان کی ثروت کا اثرظاہر نہ تھا،ایک مرتبہ ابراہیم نے ان کے جسم پر روئی کا معمولی کرتا جس کی آستینیں ہتھیلیوں تک لٹکتی تھیں دیکھ کر کہا، ابا کوئی قرینہ کا لباس کیوں نہیں پہن لیتے،جواب دیا بیٹا جب میں بصرہ میں آیا،اُس وقت ہزاروں پیدا کیے؛ لیکن اس سے میری خوشی اورمسرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوااور نہ اسے دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے، میں یہ چاہتا ہوں کہ جو پاک لقمہ میں کھاتا ہوں وہ اس شخص کے منہ میں جائے جو مجھے سب سے زیادہ مبغوض ہو،کیونکہ میں نے ابودرداء سے سنا ہے کہ قیامت میں ایک درہم رکھنے والے سے زیادہ دودرہم رکھنے والے سے حساب ہوگا۔[3]

ایسے زاہد باپ کی تعلیم و تربیت نے ابراہیمؑ کو ابتدا ہی سے دنیا سے بے نیاز اورزہد وعبادت کی جانب مائل کر دیا تھا؛چنانچہ آگے چل کر وہ اپنے عہد کے ممتاز ترین عباد میں ہوئے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ وہ بڑے عابد وزاہد تھے اور فاقہ کشی پر اُن کو بڑی قدرت تھی۔[4]

عبادت میں اس قدر اہتمام تھا کہ تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوتی تھی اوراُس سے غفلت کرنے والے کو گیا گذرا سمجھتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ جسے تکبیر اولیٰ میں تساہل کرتے دیکھو اُس سے ہاتھ دھوڈالو۔[5]

نماز میں کیف واستغراق کا یہ عالم تھا کہ سجدہ کی حالت میں چڑیاں پیٹھ پر اڑ اڑکے بیٹھتی تھیں اور چونچیں مارتی تھیں [6] دودو مہینے مسلسل روزے رکھتے تھے [7] اورمحض ایک انگور روزانہ پر پورا چلہ گذاردیتے تھے۔[8] لیکن اس زہد وعبادت پر بھی اپنے اعمال کو قابل اعتنانہ سمجھتے تھے اورفرماتے تھے کہ جب اپنے قول وعمل میں موازنہ کرتا ہوں توجھوٹا بننے سے خوف معلوم ہوتا ہے۔[9]

ایثار قربانی ترمیم

ایثار کا بے مثل نمونہ اورشہادت ،ایثار اورقربانی کا مجسم پیکر تھے،اس کی آخری حد یہ ہے کہ دوسروں کے لیے جان تک دینے میں دریغ نہ کیا،انھوں نے ایثار،قربانی کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی مثالیں کم ملتی ہیں، حجاج ثقفی ابراہیم نخعی کا جو بڑے ممتاز عالم تابعی ہیں سخت دشمن تھا وران کے درپے آزاررہا کرتا تھا،لیکن دست رس حاصل نہ ہو سکا،اس کے آدمی ہمیشہ ان کی تلاش میں رہتے تھے،ایک مرتبہ وہ ابراہیم نخعی کو تلاش کر رہے تھے،ابراہیم تیمی کو دونوں کی مخالفت کا علم تھا اس علم کے باوجود انھوں نے ان کے بچانے کے لیے کہہ دیا کہ ابراہیم میں ہوں تلاش کرنے والے آدمی ابراہیم نخعی کو پہچانتے نہ تھے،اس لیے ان کے اقرارپر انہی کو پکڑلے گئے،حجاج نے زنجیروں میں جکڑواکے دیماس کے قید خانہ میں جس کو اُس نے سنگین مجرموں کے لیے خاص طور سے بنوایا تھا ڈلوادیا۔

وفات ترمیم

یہ قید خانہ کیا تھا موت کاگھر تھا،اس میں سردی اورگرمی پانی اوردھوپ سے بچنے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا، اس پر محن قید نے چند ہی دنوں میں ابراہیم کا رنگ وروپ ایسا بدل دیا کہ ان کی ماں تک ان کو پہچان نہ سکیں؛ لیکن وہ نہایت صبرواستقلال کے ساتھ ان مصائب کا مقابلہ کرتے رہے ا وران کو جھیلتے جھیلتے بالآخر انتقال کر گئے،اُن کی شب وفات کو حجاج نے خواب میں دیکھا کہ آج شہر میں ایک جنتی مرگیا ہے،صبح کو اس نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ ابراہیم نے قید خانہ میں انتقال کیا،یہ سن کر اس جفاشعار نے کہا خواب شیطانی وسوسہ معلوم ہوتا ہے اورابراہیم کی لاش گھوڑے پر پھینکوادی۔[10]

بعض اقوال ترمیم

ابراہیم کے بعض اقوال نہایت حکیمانہ ہیں،فرماتے تھے کہ انسان کے لیے علم کے نتائج میں سے خشیت الہی اورجہل کے نتائج میں سے اپنے عمل پر غرور کافی ہے اور طمعیں انسان کو بد کرداریوں پر آمادہ کرتی ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (تذکرہ الحفاظ:1/23)
  2. (تہذیب التہذیب :1/176)
  3. (ابن سعد:6/200)
  4. (تہذیب التہذیب:1/176)
  5. (طبقات کبریٰ شعرانی:36)
  6. (ایضاً)
  7. (ایضاً)
  8. (ایضا)
  9. (طبقات کبریٰ:36)
  10. (ابن سعد:6/199)