ابن بطہ عکبری چوتھی صدی کے حنبلی مذہب کے کبار علما میں سے ہیں، سنہ 304 ہجری میں پیدائش اور 387 میں وفات ہے۔

ابن بطہ عکبری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 916ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عکبرا   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 997ء (80–81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عکبرا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
عملی زندگی
استاذ ابو القاسم بغوی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام اور حالاتِ زندگی ترمیم

عبد اللہ بن محمد بن محمد بن حمدان عکبری، کنیت ابو عبد اللہ ہے، ابن بطہ سے مشہور ہیں، حنبلی مذہب کے پیروکار تھے۔

  • ولادت: عکبرا میں شوال سنہ 304 ہجری میں پیدا ہوئے۔[1]
  • وفات: عکبرا ہی میں عاشورا میں سنہ 387 ہجری میں وفات پائی۔[2]
  • اسفار: ابن بطہ نے مکہ، ثغور، شام، بصرہ اور دوسرے ملکوں کا خوب اسفار کیا ہے۔[3]

سیرت ترمیم

اہل سنت والجماعت کے امام مانے جاتے تھے، حنبلی فقہا میں سے تھے، بہت نیک زاہد اور مستجاب الدعوات تھے۔ ان کے شاگرد عتیقی کہتے ہیں: "شیخ نیک اور مستجاب تھے۔"[4] ابو سعد سمعانی کہتے ہیں: "زبردست امام، بڑے عالم اور فقہ و حدیث کے ماہر تھے، اہل عراق سے علم حاصل کیا تھا، حنبلی فقیہ تھے، ان کی بہت سی مفید بہترین تصنیفات ہیں۔"[5] ذہبی کہتے ہیں: "حدیث و فقہ میں امام کا درجہ حاصل تھا، صاحب حال اور مستجاب الدعوات تھے۔"[6] عبد الحمید عکبری کہتے ہیں: "میں نے محدثین اور دوسروں کو ابن بطہ سے زیادہ اچھی حالت میں نہیں دیکھا۔"[7] قاضی ابو حامد دلوی کہتے ہیں: "امر بالمعروف کو سختی سے انجام دیتے تھے، جب بھی کوئی منکر بات انھیں معلوم ہوتی تو اس کو ختم کر دیتے تھے۔"[7]

ابو الفتح قواس کہتے ہیں کہ: میں نے ابو سعد اسماعیلی سے ابن بطہ اور ان کے علم و زہد کا تذکرہ کیا، تو انھوں نے کہا: ان کے پاس جانے کے لیے میرے شوق کو بھڑکا دیا، پھر اپنے اہل و عیال کے ساتھ نکل پڑے، واپسی پر میں نے حال پوچھا، فرمایا: "جتنا تم نے بیان کیا تھا اس سے کہیں بڑھ کر پایا یعنی ابن بطہ کو۔"[8]

ابو بکر اسماعیلی کے بیٹے ابو مسعود احمد بجلی کہتے ہیں: "جب سے میں ابو عبد اللہ ابن بطہ کو دیکھا ہے اس وقت سے حنبلی مذہب سے محبت ہو گئی ہے۔"[9]

ابو محمد جوہری کہتے ہیں: میں نے اپنے بھائی ابو عبد اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا، میں نے پوچھا ائے رسول اللہ! کون سا مذہب سب سے بہتر ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا: ابن بطہ کا مذہب۔ فوراً میں بغداد سے عکبرا کے لیے نکل گیا، جمعہ کے دن عکبرا پہنچا، ابو عبد اللہ ابن بطہ سے جامع مسجد میں ملاقات کا ارادہ کیا، جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا فرمایا: رسول اللہ نے سچ کہا تھا، رسول اللہ نے سچ کہا تھا۔[10]

اساتذہ ترمیم

  1. ابو القاسم عبد اللہ بغوی
  2. ابو زر بن باغندی
  3. محمد بن مخلد
  4. محمد بن احمد بن ثابت عکبری
  5. جعفر قافلائی
  6. ابو قاسم خرقی
  7. ابو بکر عبد العزیز

وغیرہم[11]

تلامذہ ترمیم

  1. ابو نعیم اصفہانی
  2. محمد بن ابو الفوارس
  3. ابو علی بن شہاب عکبری
  4. ابو محمد جوہری

وغیرہم[11]

حافظہ کا ضعف اور علمائے جرح و تعدیل کی آرا ترمیم

  • ذہبی کہتے ہیں: «(ابن بطہ) محدث تھے، لیکن ضعیف راوی ہیں۔»[12]
  • ابو القاسم ازہری کہتے ہیں: «ابن بطہ بالکل ضعیف ہیں۔»[13]

ذہبی، ازہری کے اس نقد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ «ابن بطہ حافظہ کے ضعف کے باوجود سنت و فقہ کے امام اور مستجاب الدعوات تھے۔»[6]

  • محمد بن ابو الفوارس کہتے ہیں: «ابن بطہ نے بغوی، انھوں نے مصعب بن عبد اللہ، انھوں نے مالک، انھوں نے زہری اور زہری نے انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔»

خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ: «یہ حدیث اس سند کے ساتھ باطل اور موضوع ہے، گڑھنے کا الزام ابن بطہ پر ہے، واللہ اعلم۔»[14] ذہبی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: «بہت گندی عبارت ہے، ماننے والی بات نہیں ہے، گرچہ ابن بطہ نے غلطی کی ہے اور قلت حافظہ کی وجہ سے سند میں سند داخل کر دی ہے۔»[15]

اسی طرح ابن بطہ نے حفص بن عمر اردبیلی کی روایت میں بھی غلطی کی ہے کہ انھوں نے رجاء بن مرجی سے روایت لی ہے، دار قطنی نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے «حفص ایسا نہیں کر سکتے، انھوں نے حفص کے لڑکوں سے اس تعلق سے ہوچھا، تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے والد نے رجاء کو کبھی نہیں دیکھا ہے۔»[16]

تالیفات ترمیم

  • الابانة الکبیر و الابانة الصغیر
  • التفرد و العزلة
  • المناسک
  • تحریم النمیمة
  • صلاۃ الجماعة
  • ابطال الحیل

ان کے بہت سی تصنیفات اور تالیفات ہیں۔[17]

حوالہ جات ترمیم

  1. طبقات الحنابلة لإبن أبي يعلى (ج3 ص259)، والأعلام للزركلي (ج4 ص197).
  2. تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (ج12 ص106 ت. بشار عواد معروف)، وطبقات الحنابلة (ج3 ص272)
  3. طبقات الحنابلة (ج3 ص257)؛ وتاريخ بغداد (ج12 ص101)
  4. تاريخ بغداد (ج12 ص106)
  5. الأنساب للسمعاني (ج1 ص368)
  6. ^ ا ب ميزان الاعتدال (ج3 ص15)
  7. ^ ا ب تاريخ بغداد (ج12 ص102)
  8. تاريخ دمشق (ج38 ص108)
  9. طبقات الحنابلة (ج3 ص260)
  10. طبقات الحنابلة (ج3 ص258)
  11. ^ ا ب وطبقات الحنابلة (ج3 ص257)؛ وتاريخ بغداد (ج12 ص100-101)؛ سير أعلام النبلاء للذهبي (ج16 ص529)
  12. العبر في خبر من غبر للذهبي في ترجمة ابن بطة.
  13. تاريخ بغداد (ج12 ص104)
  14. تاريخ بغداد (ج12 ص105)
  15. سير أعلام النبلاء للذهبي (ج16 ص531) وتاريخ الإسلام له.
  16. سير أعلام النبلاء (ج16 ص533)
  17. طبقات الحنابلة (ج3 ص270-271)