احمد بن حسین بروعی

(ابو سعید بروعی سے رجوع مکرر)

احمد بن حسین بروعی فقہائے کبار اور مشائخ نامدار سے بڑے عالم فاضل امام وقت مجتہد عصر تھے

نسبت

ترمیم

شہر بروع میں جو آذر یائیجان متعلقہ حد غربی ایران میں ہے،رہتے تھے،کنیت آپ کی ابو سعید بروعی تھی، نام کی نسبت اس سے زیادہ مشہور ہیں

حصول علم

ترمیم

علم آپ نے اسمٰعیل بن حماد اور ابی علی دقاق سے حاصل کیا اور آپ سے ابو الحسن کرخی اور ابو طاہر دباسی اور ابو عمر والبطری نے تفقہ کیا۔حافظ الدین نفسی نے کتاب کافی کے باب الیمین فی الطلاق والعتاق میں مسئلہ بروعیہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ آپ (ابوسعید) کہتے ہیں کہ ہم کو یہ مسئلہ نہایت ادق معلوم ہوتا تھا اور بروع میں اس کا حل کرنے والا کوئی عام و فاضل نظر نہ آتا تھا،ناچار بغداد میں آئے اور قاضی ابو حازم سے اس مسئلہ کو حل کیا اور ہم ان کے پاس چار سال تک ٹھہرے رہے۔ بغداد میں آنے سے پہلے ہم نے جامع کبیر تین یا چار سو دفعہ پڑھی تھی، کفایہ شرح بدایہ میں لکھا ہے کہ آ پ ایک مرتبہ حج کے لیے جمعہ کے روز بغداد میں تشریف لائے اور بعد نماز جمعہ کے آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ واسطے مناظرہ کے بیٹھے ہیں اور ان میں داؤد نے جواب دیا کہ ام ولد کی بیع جائز ہے کیونکہ ہم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ علوق سے پہلے اس کی بیع جائز ہے پس ایسا اجماع بغیر کسی ایسے ہی یقین کے مرتفع نہیں ہو سکتی۔ حنفی اس امر میں حیران ہوا کہ کیونکہ داؤد قیاس کو نہیں مانتے تھے اور کبر واحد یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔اس پر آپ نے یہ حال دیکھ کر فرمایا کہ ہم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ علوق کے بعد اس کی بیع جائز نہیں،پس یہ اجماع بغیر دوسرے ہم مثل اس اجماع کے دور نہیں ہوتا،داؤدیہ سنکر ساکت ہو گئے۔ آپ نے جب دیکھا کہ داؤد اور ان کے اصحاب فقہ میں ایسے سست ہیں تو آپ منسبت کہ معظمہ کا ارادہ ملتوی کر کے تدریس کے لیے بغداد میں ٹھہر گئے اور داؤد کے اصحاب بغرض استفادہ آپ کے پاس جمع ہوئے یہاں تک کہ ایک رات آپ نے خواب میں یہ سنا کہ کوئی کہتا ہے کہ دولت تو جھاگ کی طرح فوراً دور ہو جاتی ہے لیکن جو فائدہ لوگوں کو پہنچایا جائے،وہ باقی رہتا ہے۔پس آپ یہ بات سن کر جاگ اٹھے، اتنے میں کسی نے آپ کا دروازہ کھڑکا کر کہا کہ داؤد ظاہری فوت ہو گئے ہیں،اگر آپ کو نماز جنازہ پڑھنی ہے تو آجائیں کچھ مدت بعد آپ مکہ معظمہ کو تشریف لے گئے

وفات

ترمیم

مکہ مکرمہ میں عشرۂ اولیٰ ماہ ذی الحجہ 317ھ میں قرامطہ کی لڑائی میں شہید ہوئے۔’’انوار جہاں‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حدائق الحنفیہ: صفحہ 189مولوی فقیر محمد جہلمی : مکتبہ حسن سہیل لاہور