ابو منصور عجلی کا ذکر جھوٹے مدعیان نبوت کے تذکرے میں آتا ہے، یہ شخص ابتدا میں امام جعفر صادق کا معتقد تھا لیکن پھر ایک دن نبوت کا دعویدار بن بیٹھا۔

ابتدا

ترمیم

ابتدا میں ابو منصور عجلی، امام جعفر کا معتقد اور رافضی غالی تھا۔ لیکن جب امام ہمام نے عقیدۂ رافضیہ کے سبب اپنے یہاں سے خارج کر دیا تو دل میں بیٹھے غبار نے غلط راستے کی رہنمائی کر دی اور اس نے چند روز میں ہی یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ امام محمد باقر کا خلیفہ اور جانشین ہے اور یہ کہ امام محمد باقر کا درجۂ امامت اس کی طرف منتقل کیا گیا ہے۔

عجیب و غریب

ترمیم

اس کا کہنا تھا کہ امام محمد باقر کی رحلت کے بعد اللہ تعالی نے اس کو آسمان پر بلا کر یہ کہا کہ "اے بیٹے! لوگوں کی طرف میرا پیغام پہنچا دے۔ امامت سے پہلے جو باتیں حضرت علی سے منسوب کرتا تھا، امامت کے ان باتوں کو خود سے منسوب کرنے لگا۔ قرآن کریم کے نصوص شرعیہ میں عجیب و غریب تاویل کرتا تھا، مثلاً یہ کہ جنت اور دوزخ کے تعلق سے کہتا کہ جنت، دراصل دنیاوی عیش و آرام کا نام ہے اور دوزخ کا مطلب دنیاوی پریشانیاں ہیں۔ کبھی کہتا کہ جنت سے قابلِ احترام اور نسبت اہل بیت ہیں اور دوزخ سے مراد، ابو بکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں۔ کبھی حضرت علی اور ان کی اولاد کو فرائض سے تعبیر دیتا اور کبھی دوسرے اجلہ صحابہ کو محرمات کہ دیتا۔

عقیدۂ نبوت

ترمیم

نبوت کے متعلق اس کا عقیدہ تھا کہ اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور یہ کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام غلطی سے حضرت محمد ﷺ کے پاس وحی لے کر چلے گئے ورنہ دراصل ان کو حضرت علی کے پاس بھیجا گیا تھا۔

تعلیمات کفریہ

ترمیم

ابو منصور عجلی کی تعلیم یہ تھی کہ جو کوئی امام تک پہنچ جائے اس سے تمام تکلفات شرعیہ اٹھا لیے جاتے ہیں اور یہ کہ جو کوئی ابو منصور عجلی کے عقائد و فکر سے اختلاف رکھنے والے چالیس افراد کو قتل کرے گا اسے قرب خدا وندی نصیب ہوگا۔

انجام

ترمیم

ختم نبوت کا انکار، باطل عقائد اور تعلیمات کفریہ کے سبب ابو منصور عجلی پر کفر کا فتویٰ لگا، چنانچہ خلیفہ ہشام بن عبد الملک کی طرف سے مقرر کردہ والئ عراق یوسف بن عمر ثقفی کو جب ان باتوں کا علم ہوا تو اس نے ابو منصور عجلی کو گرفتار کر کے کوفہ میں تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ اس طرح وہ اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچا۔

حوالہ جات

ترمیم

[1]

  1. (غنیۃ الطالبین) (الفرق، ٤١٢؃—٤٣٢؃)