ارتریا اسرائیل تعلقات ان خارجہ تعلقات کو کہا جاتا ہے جو ارتریا اور اسرائیل کے بیچ قائم ہیں۔ دونوں ممالک 1993ء میں ارتریا کی آزادی کے فوری بعد کے دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ ارتریا کا سفارت خانہ جڑواں میناروں میں ہے جو رمت غان کا حصہ ہے۔ اسرائیل کا سفارت خانہ اسمارا میں ہے۔ اسرائیلی ارتریائی تعلقات میں تلخی اس بات سے پیدا ہوتی رہی ہے کہ اسرائیل ایتھوپیا کے ساتھ نزدیکی تعلق رکھتا ہے، جس سے ارتریا کا غیر دوستانہ الحاق رہا ہے۔ تاہم پھر بھی یہ تعلقات عام طور سے قریب ہی کے سمجھے جاتے ہیں۔ ارتریا کا سرکاری نام مملکت ارتریا اسرائیل کے سرکاری خطاب مملکت اسرائیل پر بنا ہے۔[حوالہ درکار] اسی طرح ارتریائی دفاعی فوج کا نام اسرائیلی دفاعی افواج کے نام پر رکھا گیا ہے۔[حوالہ درکار]

ارتریا اسرائیل تعلقات

اسرائیل

اریتریا

ارتریا کی جنگ آزادی

ترمیم

ارتریا کی جنگ آزادی کے بیش تر دور میں اسرائیل نے ایتھوپیا کی حمایت کی۔ اسرائیل نے ارتریائی تنازع کو وسیع تر عرب اسرائیلی تنازع کی ہی توسیع سمجھی۔ بیش تر عرب ملکوں نے ایتھوپیا سے ارتریا کی علیحدگی کی حمایت کی۔ ان ملکوں نے قابل لحاظ مسلمان آبادی (45%) کو ایک ذریعہ سمجھا کہ بحر احمر "عربوں کا سمندر" بنا رہے گا۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے ایتھوپیائی حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوئی تاکہ وہ ایتھوپیائی ساحل سے استفادہ کر سکے جو 1080 کیلو میٹر کی مسافت پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی شروعات 1960ء سے ہوئی جب اسرائیل نے ایتھوپیائی حکومت کی ارتریائی محاذ آزادی (ای ایل ایف) کی مدد کرنے لگا تھا۔ اسرائیل نے ای ایل ایف کی جد و جہد پر عرب حمایت کو دیکھا اور اسے ڈر تھا کہ عرب حامی ارتریا بحر احمر سے اسرائیل کے گزرنے پر روک لگا سکتا ہے۔ جنگ کے آغاز کے ساتھ اسرائیل کی ایتھوپیائی حکومت کی امداد بڑھتی رہی۔ 1966ء تک ایتھوپیا میں تقریبًا 100 اسرائیلی فوجی مشیر تھے۔ 1967ء تک اسرائیلی مشیروں کی تربیت یافتہ فوجیں ارتریا کے بیش تر حصے پر قابض تھے۔ 1970ء تک ارتریائی عوامی آزادی محاذ (ای پی ایل ایف) اصل باغی گروہ کے طور پر ابھرا تھا۔ اس نے ای ایل ایف کو ٹیگریان عوامی آزادی محاذ (ٹی پی ایل ایف) کی مدد سے ہرا دیا تھا۔ ایک دہے کی جنگ کے بعد مئی 1991ء میں ایتھوپیائی حکومت کا تختہ ای پی ایل ایف اور ٹی پی ایل ایف نے مل کر پلٹ دیا تھا۔

آزادی کے بعد

ترمیم

1993ء میں ارتریا کے صدر عیسیاس افیویرکی طبی علاج کے لیے اسرائیل آئے تھے۔ اس وقت ان دو حکومتوں کے بیچ کلیدی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ [1] افیویرکی کو اسرائیل ایک امریکی جہاز کے ذریعے منتقل کیا گیا تھا۔ ارتریائی دار الحکومت میں ریاستہائے متحدہ کے ایک نمائندے نے اس رہنما کی بیماری کے بعد یہ مشورہ دیا تھا۔ ان واقعات اور امریکی کوششوں کے بعد اسمارا میں اسرائیلی سفارت خانے کا افتتاح 15 مارچ، 1993ء کو عمل میں آیا، جس کا سرکاری طور پر اعلان بعد میں 27 اپریل، 1993ء کو ہوا تھا۔ عرب مملکتوں کی جانب سے الزامات عائد ہوتے آ رہے ہیں کہ فوجی خفیہ پیام رسانی کا تبادلہ جاری ہے جس میں یہ دعوٰی ہے کہ اسرائیل نے ارتریا کی حمایت یمن کے خلاف ہانش جزائر تنازع میں مدد کی تھی، تاہم اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔ مزید یہ کہ ارتریا کی حکومت نے فلسطینی مقصد سے زبردست مخاصمت مول لی ہے اور ان لوگوں کے وجود اور حق خود اداریت کی مخالفت کی ہے۔[حوالہ درکار]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Eritrea-Israel relations"۔ 25 اکتوبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولا‎ئی 2018