اردشیر بابکاں (اول)
ایران کے مشہور ساسانی خاندان کا بانی۔ ابتدا میں فارس کاحاکم تھا۔ اشکانی (پارتھین) بادشاہ ارتانیس کی اطاعت سے انکار کیا۔ برنر کے مقام پر اسے شکست دی اور ایران کا شہنشاہ بن گیا۔ اس نے پنجاب کا سارا علاقہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ قیصر روم کی فوجوں کو شکست دی اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔ اردشیر نے زرتشتی مذہب کو، جو اشکانیوں کے عہد میں کمزور ہو گیا تھا دوبارہ فروغ دیا۔ پارسی موبدوں اور دستوروں کو جاگیریں بخشیں اور آتش کدوں کو ازسرنو روشن کیا۔ نظم و نسق اور فوج کی اصلاح کی اور عدل و انصاف پر زور دیا۔ اس کا قول تھا کہ باقاعدہ فوج کے بغیر حکومت ممکن نہیں، روپے کے بغیر فوج ممکن نہیں۔ زراعت کے بغیر روپیہ ممکن نہیں اورانصاف کے بغیر زراعت ممکن نہیں۔
اردشیر اول یا ارتخشتر اول (226 تا 240 ء) Ardeshir or Artaxerxes
ساسانیوں سے ایران کی تاریخ کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے، جو شاندار بھی ہے اور صیح معنوں میں تاریخی بھی۔ اس خاندان کی ابتدا ارد شیر اربکان سے ہوتی ہے، جس کے باپ کا نام بابک Papak اور دادا ساسان Sasana تھا۔ ساسان اصطخر کے ایک مندر کا پجاری تھا۔ اشکانی حکومت کے زمانے میں ایران بہت سی چھوٹی چھوٹی نیم آزاد ریاستوں میں منقسم تھا۔ ان میں ایک ریاست نسیایہ کی تھی، جس کے حکمران کو بازنگی Sasana کہتے تھے۔ ساسان کی بیوی ایک بازنگی امیر کی بیٹی تھی، بابک اسی کے بطن سے تھا۔ اشکانی حکومت کی کمزوری نیز اپنی مذہبی پیشوائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ساسان نے سیاسی طاقت حاصل کرنی شروع کی۔ بازنگی کی ریاست نے اسے یہ موقع فراہم کیا۔ چنانچہ ساسان کا بیٹا بابک بازنگی خاندان کو ختم کرکے خود امیر بن گیا۔ بابک کے بعد اردشیر Artaxerxes حاکم بنا، جو باپ داد سے بھی حوصلہ مند تھا۔
اردشیر نے حکمران بنتے ہی اپنی طاقت کو مستحکم کرنا شروع کیا اور اشکانی حکمران اردوان پنجم Artabarus 5th کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کرمان، اصفہان اور سوسہ کو اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ اردشیر اور اردوان کے درمیان دو جنگیں ہوئیں، پہلی جنگ تو بے نتیجہ رہی، مگر آخری جنگ میں اردوان مارا گیا اور اشکانی حکومت ختم ہو گئی۔
اردشیر نے اپنی سلطنت وسیع کرنے کی کوشش کی اور قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور ہر قدم پر اسے کامیابی نصیب ہوئی۔ اس نے مشرق میں پنجاب تک کے علاقے فتح کیے، پھر مغرب کی طرف توجہ دی اور جنوبی عراق پر قابض ہو گیا۔ شمالی عراق پر پیش قدمی صورت میں رومیوں سے جنگ ناگزیر تھی �ó چنانچہ اس نے شمالی عراق اور آرمینا کو رومی بالادستی سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ رومی سلطنت کابادشاہ سور الگزندڑ Severus Alexander� تھا، اس نے ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر مصالحت کی کوشش کی۔ اس نے اردشیرکو ایک تہدیدی مگر مصالحانہ خط لکھا کہ وہ اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھے۔ اردشیرنے اس کا سخت جواب دیا اور شمالی عراق پر حملہ آور ہوا۔ اس کے مقابلے میں قیصر روم ایک بڑا لشکر لے کر آیا اور نیز آرمینا کے حکمران خسروکو ہدایت کی کہ وہ صوبہ ماد پر حملہ کر دے۔ مگر رومیوں کو شکست ہوئی اور خسرو مارا گیا۔ آرمینا Armina کے ساتھ شمالی عراق میں نصیبن اور حران کاعلاقہ ساسانی مملکت میں شامل ہو گیا۔ رومیوں سے آخری جنگ ھرمز کے مقام پر ہوئی، اس کے بعد الگزنڈر نے صلح کرلی۔ اردشیرکی موت کے بعد اس کا بیٹا شاپور Shapur تخت نشین ہوا۔[1]
اردشیر بابکاں (اول) | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 180ء اصطخر |
||||||
تاریخ وفات | سنہ 242ء (61–62 سال) | ||||||
شہریت | ساسانی سلطنت | ||||||
اولاد | شاپور اول | ||||||
خاندان | خاندان ساسان | ||||||
مناصب | |||||||
شہنشاہ فارس (ساسانی سلطنت) | |||||||
برسر عہدہ 28 اپریل 224 – فروری 242 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
درستی - ترمیم |
مزید دیکھیے
ترمیمویکی ذخائر پر Ardashir I سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ڈاکٹرمعین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم
بیرونی روابط
ترمیم- Book of the Deeds of Ardashir son of Babak
- R. N. Fye, "Babak" in Encyclopædia Iranica [1]
- J. Wiesehöfer, "Ardasir" in Encyclopædia Iranica [2]
اردشیر بابکاں (اول)
| ||
ماقبل (new founding)
|
"ایران کے بادشاہوں کا بادشاہ" 224–242 |
مابعد |