ا رہاص آئندہ نبوت کا پیش خیمہ یا یہ نبوت کی تمہید ہوتی ہے

ارہاص کے معنی ترمیم

معنی عمارت کومضبوط وپختہ بنانا بنیاد مستحکم رکھنا،اس کے ذریعے نبوت کی دیوار کی پختگی کی جاتی ہے

اصطلاحی معنی ترمیم

جو خرق عادت کام نبی کی نبوت سے پہلے ظاہر ہو اس کو ا رہاص کہا جاتا ہے، جیسا کہ واقعہ فیل کو نبی کریم ﷺ کے ا رہاصات میں شمار کیا گیا ہے۔ ” اصحاب الفیل الذین کانوا قد عزموا علی ھدم الکعبۃ کان ھذا من باب الارھاص لمبعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “۔[1] جو چیزیں خلاف عادت اور خرق عادت کے طور پر کسی کے ہاتھ پر صادر ہوں اگر نبی کے ہاتھ پر نبوت ملنے سے پہلے صادر ہو تو اس کو ارھاص کہتے ہیں ا رہاص کا معنی تمہید ہے۔ جیسے آنحضرت ﷺ نبوت کے ملنے سے پہلے مکہ مکرمہ میں راستوں سے گزرتے تھے تو پتھر آپ کو سلام کرتے تھے۔ بچپن میں ابو طالب آپ ﷺ کو سفر میں ساتھ لے گئے بڑی سخت گرمی اور دھوپ تھی بادل نے آپ کر آپ کے سر پر سایہ کیا اس کو ا رہاص کہتے ہیں اور جو خلاف عادت چیزیں نبوۃ ملنے کے بعد ظاہر ہوں ان کو معجزہ کہتے ہیں [2] اہل مکہ ولادت پاک سے بھی حضور انور کے معجزات جنہیں ارہاص کہتے ہیں دیکھا کرتے تھے،ان میں سے بعض لوگ حضور کی نبوت پہچان گئے تھے سفر شام میں بحیرہ راہب اس زمانہ کے اولیاء اللہ میں سے تھا اس نے اپنے کشف سے درختوں اور پتھروں کوسجدہ میں گرنا دیکھ لیا نبی کی ولادت اور اعلان نبوت سے پہلے جو امور خلاف عادت ظاہر ہوں ان کو ا رہاص کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مریم ایسی خاتون سے پیدا ہوئیں جو بوڑھی اور بانجھ تھیں یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ا رہاص ہے، اسی طرح حضرت مریم کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے قبول کر لیا گیا یہ بھی ان کے معمول کے خلاف تھا تاکہ ان کی پاکیزہ سیرت ان کے بیٹے کے روح اور کلمۃ اللہ ہونے کا عنوان بن جائے۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. (ابن کثیر : ج : 4: ص : 549)
  2. تفسیر ذخیرۃ الجنان۔ سرفراز خان صفدر
  3. تفسیر تبیان القرآن،غلام رسول سعیدی زیر آیت آل عمران 35