استقرائی منطق، کے نظریے کے مطابق سائنس کا آغاز مشاہدے سے ہوتا ہے، یعنی سائنس حصولِ علم کا ایسا طریقہ ہے جس میں مشاہدات کی بنیاد پر نظریات [Theories]قائم کیے جاتے ہیں۔ ان مشاہدات کی بنیاد انسان کے حواس خمسہ پر ہے یعنی سماعت، بصارت، لمس، سونگھنا اور چکھنا، دعوی یہ ہے کہ ان حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات کوبنیاد بنا کر آفاقی نوعیت کے نظریات قائم کرنا ممکن ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل مثالوں پر غور کریں:

  1. 9 اپریل 2006ءکو پاکستان میں سورج گرہن ہوا۔
  2. میری پینسل اگر پانی میں جزوی طور پرڈ بوئی جائے تو ٹیڑھی نظر آتی ہے۔
  3. اس لوہے کو جب گرم کیا گیا تو وہ نرم ہو کر پھیل گیا۔

حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کردہ علم:

ان مثالوں پر غور کرنے سے ایک خاص واقعہ کا کسی خاص مقام اور خاص وقت پر وقوع پزیر ہونا معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً پہلی مثال سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک خاص تاریخ [9 اپریل] کو ایک خاص مقام [پاکستان] پر ایک واقعے کا مشاہدہ کیا گیا۔ اسی طرح تیسری مثال سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ایک خاص لوہے کو جب گرم کیا گیا تو وہ نرم ہو گیا۔ چناں چہ ایک ایسا بیان [Statement] جس میں کسی خاص واقعے کا کسی خاص وقت اور مقام پر مشاہدے کا دعویٰ کیا جائے ایک Singular Proposition [خاص یا منفرد قضیہ] کہلاتا ہے۔ ان مثالوں سے ایک بات واضح ہوجانی چاہیے اور وہ یہ کہ تمام مشاہداتی بیانات [Observative Statement] بنیادی طور پر Singular Proposition ہی ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی بنیاد وہ مشاہدات ہیں جو کوئی شخص اپنے حواس خمسہ کے ذریعہ حاصل کرتا ہے۔

استقرائی منطق میں جزو سے کُل کی طرف سفر کیا جاتاہے۔ جس کی مثال یہ ہے۔ جزو الف = ہندوستان کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزوب= افغانستان کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزوج = ایران کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزود= امریکا کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
جزو س= جاپان کے کوّے کالے ہوتے ہیں۔
غرض، اسی طرح جتنے زیادہ ممکن ہوسکیں اجزأ اکھٹا کیے جاتے ہیں اور پھر نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ مثلاً مذکورہ بالا استقرائی مقدمہ میں نناوے فیصد اجزأ یہ کہتے ہیں کہ "کوّا کالا ہوتاہے”۔ چنانچہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ کوّا کالا ہوتاہے۔[1] یہ تو سادہ سی مثال تھی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم