امام ربیع بن صبیح کی طرح اسرائیل بن موسیٰ نے بھی سرزمین ہند کو اپنے ورود سے مشرف کیا تھا، تاجر کی حیثیت سے ہندوستان میں اُن کی آمد ورفت کثرت سے ہوتی تھی،اسی بنا پر "فزیل الھند" ان کا لقب پڑ گیا تھا، رئیس التابعین امام حسن بصری سے خصوصی تلمذ حاصل تھا،افسوس ہے کہ تذکرہ نگاروں نے ان کے ساتھ بہت ہی کم اعتنا کیا ہے، اسی وجہ سے طبقات وتراجم کی کتابوں میں ان کے حالات نہ ہونے کے برابر ملتے ہیں اور جو ہیں بھی وہ انتہائی تشنہ وناقص،بہر حال ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اس بزرگ محدث کے بارے میں جو معلومات بہم پہنچ سکیں وہ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

حضرت اسرائیل بن موسی بصریؒ
معلومات شخصیت

نام ونسب ترمیم

نام اسرائیل اورابو موسیٰ کنیت تھی،والد کانام موسیٰ تھا، اس کے بعد کا سلسلۂ نسب نامعلوم ہے،ان کی کنیت باپ کے نام پر ہے [1] متقدمین ائمہ میں ایسی متعدد شخصیتیں گذری ہیں جن کی کنیت ان کے باپ کے نام پر ہے، علامہ سیوطی نے تدریب الراوی میں ان کی تفصیل دی ہے۔

وطن ترمیم

عام تذکرہ نگاروں کے خیال کے مطابق اسرائیل بن موسیٰ کا وطن بصرہ ہے اوراسی کی نسبت سے وہ بصری مشہور بھی ہوئے۔ [2]

شیوخ ترمیم

ابو موسیٰ اسرائیل زمرۂ اتباع تابعین کا وہ گلِ سرسبد تھے جنھوں نے کبار تابعین کی صحبت اٹھائی تھی،ان کا عہد علمی و عملی حیثیت سے تاریخ اسلام کا ایک مثالی دور تھا،تمام اسلامی ممالک علما وصلحاء سے معمور تھے، بالخصوص سرزمین بصرہ اس وقت کا ایک اہم علمی و دینی مرکز خیال کی جاتی تھی،امام حسن بصری اسی خطۂ علم پر اپنے فیض کا چشمہ جاری کیے ہوئے تھے، جس سے دور دراز ممالک کے تشنگانِ علم آکرسیراب ہوتے تھے،ابو موسیٰ اسرائیل نے بھی اسی شیخ وقت کے سامنے زانو ئے تلمذ تہ کیا اوران کے دامنِ فیض سے کچھ اس طرح وابستہ ہوئے کہ زبانِ خلق نے "صاحب الحسن" کا تمغۂ شہرت عطا کیا۔ حسنؒ بصری کے علاوہ انھیں اور بھی بہت سے مشاہیر ائمہ اورکبار تابعین سے اکتساب علم کا موقع نصیب ہوا جن میں امام وہب بن منبہ، ابو حازم اشجعی، محمدابن سیرین کے اسمائے گرامی فائق وممتاز ہیں[3]ان میں سے ہر ہر فرد بجائے خود ایک دارالعلم تھا، ان گنجہائے گرانمایہ سے ابو موسیٰ نے علم و فضل کا کس قدر وافر حصہ حاصل کیا ہوگا، آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ تلامذہ دوسری صدی ہجری میں ابوموسیٰ اسرائیل کی ذات گرامی اپنے گوناگوں اوصاف وکمالات کی بناپر مرجعِ خلائق بن گئی تھی،ان کے آفتاب ِ فیض کی کرنوں نے دنیا کے مختلف خطوں کو منور کیا تھا؛چنانچہ ہندوستان بھی اس دولتِ بے بہا سے محروم نہیں رہا۔ بصرہ جو ان کا وطن اورمستقل جائے اقامت تھا وہاں بھی ان کے حلقہائے درس قال اللہ وقال الرسول کے دلنواز ترانوں سے گونجتے رہے،اس کے علاوہ کوفہ اورمکہ میں بھی انھوں نے درسِ حدیث کی مجلسیں گرم کیں۔ کوفہ میں ان کے درس وافادہ کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ ان کے تلمیذِ رشید سفیان بن عیینہ نے فضائلِ امام حسنؓ کی حدیث اپنے استاد سے اسی جگہ سنی تھی،اس روایت میں جن سفیان کا نام آیا ہے حافظ ابن حجر نے بتصریح سفیان بن عیینہ ہی قراردیا ہے۔ [4] اسی طرح مکہ میں درسِ حدیث کے متعلق ابو موسیٰ کے ایک دوسرے شاگرد حسین بن علی الجعفی کی یہ شہادت ملتی ہے کہ انھوں نے مکہ میں ابو موسیٰ سے شرفِ ملاقات حاصل کرکے حدیث کا سماع کیا۔ علاوہ ازیں اوربھی بہت سے مقامات ایسے ہوں گے جو اس متحرک دار العلوم سے فیضیاب ہوئے ہوں گے،لیکن ان کا ذکر نہیں ملتا، بہر حال یہ حقیقت مسلم ہے کہ ابو موسیٰ اسرائیل کے حلقۂ درس سے جو بے شمار طالب علم سندِ فراغت لے کر نکلے وہ آسمانِ علم و دانش پر مہر وماہ بن کر چمکے،جس کا اندازہ کرنے کے لیے درجِ ذیل چند اسمائے گرامی ہی کافی ہیں: سفیان ثوری،سفیان بن عیینہ،یحییٰ بن سعید القطان،حسین بن علی الجعفی [5] ثقاہت وعدالت ان کے مرتبہ ثقاہت وعدالت پر یحییٰ بن معین ،ابو حاتم،امام نسائی،ابن حبان جیسے ماہرین فن بیک زبان متفق ہیں اور اس پر کسی کو بھی کلام کی جُرأت نہ ہو سکی،مزید برآں ابو موسیٰ اسرائیل کی ثقاہت کا ایک نمایاں ثبوت یہ بھی ہے کہ کتب حدیث کے جامعین اورائمہ نے اپنی کتابوں میں ان سے روایت کی ہے،امام بخاری جیسے محتاط محدث نے بھی ان کی فضائل امام حسنؓ والی روایت کو چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے [6] علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں بسند ان سے روایت کی ہے ۔[7]اس کے علاوہ نسائی،ترمذی اور ابوداؤد نے بھی ان کی مرویات کواپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ ایک اشتباہ اوراس کا ازالہ مذکورہ بالا تمام ائمہ حدیث کی توثیق کے باوجود علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ محدث ازدی نے ابو موسی کی ثقاہت میں کلام کرتے ہوئے قبولِ حدیث میں ان کی لینت (نرمی) کا ذکر کیا ہے [8]لیکن حافظ ابنِ حجر نے لکھا ہے کہ دراصل ازدی کو اشتباہ اور سؤ تفاہم ہو گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ بصری کے زمانے میں اسی نام اوراسی کنیت کے ایک اور مشہور اہل علم و فضل بھی موجود تھے جو ابو موسیٰ یمانی کہلاتے ہیں،یمن کے رہنے والے تھے اورحسنِ اتفاق سے وہ بھی وہب بن منبہ کے شاگرد تھے۔ چنانچہ ابنِ حجر کے الفاظ ہیں: وقال الازدي وحده فيه لين وليس هو الذي روى عن وهب بن منبه وروى عنه الثوري ذاك شيخ يماني قد فرق بينهما غير واحد كما سيأتي [9] اورپھر آگے شیخ یمانی کے ترجمہ میں بھی حافظ نے اس اشتباہ کا پردہ چاک کیا ہے ،رقمطراز ہیں: ابوموسیٰ شیخ یمانی روی عن وھب بن منبۃ عن ابن عباس من اتبع الصید غفل وعنہ الثوری مجہول قال ابن القطان ذکر المزی فی ترجمہ ابی موسی اسرائیل بن موسی البصری انہ روی عن وھب بن منبۃ وعنہ الثوری ولم یلحق البصری وھب بن منبۃ وانما ھذا اخر وقد فرق بینحما ابن حبان فی الثقات وابن جارود فی الکنی وجماعۃ [10] یہ ابو موسیٰ یمن کے ایک بزرگ ہیں جنھوں نے ابن عباس کے واسطہ سے وہب بن منبہ سے "من اتبع الصید غفل’ کی روایت کی ہے اوران سے ثوری نے مجہول روایت کی ہے، یہ ابنِ قطان کا قول ہے اورعلامہ مزی نے ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ بصری کے ترجمہ میں یہ جو ذکر کیا ہے کہ انھوں نے وہب بن منبہ سے اورانہوں نے ثوری سے روایت کی ہے(صحیح نہیں ہے) کیونکہ ابو موسیٰ بصری کا وہب بن منبہ سے لقاء ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسرے بزرگ ہیں، ابن حبان نے ثقاہت میں اورابن جارود نے کتاب الکنی میں ان دونوں کے درمیان تفریق کی ہے۔

ہندوستان سے روابط ترمیم

سرزمینِ ہندوستان آغازِ اسلام ہی سے آفتابِ نبوت کی کرنوں سے منور اورہر عصر وعہد میں علما وصوفیہ اوربزرگان دین کی ایک بڑی تعداد سے معمور رہی مسلمانوں کے قدم عہدِ فاروقی ہی میں ہندوستان میں پڑچکے تھے اورپھر ائمہ و محدثین انفرادی اوراجتماعی طور پر یہاں آتے رہے، ابو موسیٰ اسرائیل کے متعلق تمام محققین متفق ہیں کہ وہ متعدد بارہ ہندوستان آئے اوراسی وجہ سے "نزیل الھند"ان کا لقب ہی پڑ گیا تھا، گو کہ ان کی آمد یہاں تجارت کی غرض سے ہوتی تھی،تاہم یہ ناممکن ہے کہ اس متحرک درسگاہ نے اپنی علمی و دینی فیوض یہاں نہ چھوڑے ہوں۔ ہندوستان سے ابو موسیٰ کے تعلق کی صراحت سب سے زیادہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کی ہے لکھتے ہیں: وھو بصری کان یسافر فی التجارۃ الی الھند واقامہ بھا مدۃ [11] ابو موسیٰ اسرائیل بن موسیٰ الہندی بصرہ کے رہنے والے تھے،ہندوستان آمد ورفت کی وجہ سے اس کی طرف منسوب کیے گئے۔ اس کے علاوہ امام بخاری،علامہ ذہبی، حافظ مقدسی،خزرجی اورابو حاتم رازی وغیرہ کبار ائمہ ومحدثین نے بھی ابو موسیٰ اسرائیل کے ہندوستان سے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ [12]

آخری بات ترمیم

افسوس ہے کہ دوسری صدی ہجری کے اس ممتاز محدث اورتبع تابعی کے اس سے زیادہ حالات بتانے سے تمام تذکرے خاموش ہیں،حتی کہ ان کے سنین ولادت بھی نامعلوم ہیں،حافظ ابنِ حجر نے تقریب التہذیب میں ان کا شمار طبقہ سادسہ میں کرایا ہے،جس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس طبقہ کے دوسرے رجال کی طرح ابو موسیٰ کی وفات بھی اس صدی (دوسری صدی ہجری) کے نصف آخر میں ہوئی ہوگی،جس طرح ان کے ہم عصر محدث اورمشہور تبع تابعی ابو حفص ربیع بن صبیح کی رحلت 160 ھ میں ہوئی۔ [13]

حوالہ جات ترمیم

  1. (فتح الباری:5/52)
  2. (کتاب الکنی للدولابی:2/134)
  3. (میزان الاعتدال:1/97،وخلاصہ تہذیب الکمال:1/31،ونزہتہ الخواطر :1/23،وتہذیب التہذیب:1/261)
  4. (فتح الباری:13/52)
  5. (تہذیب التہذیب:3/261)
  6. (میزان الاعتدال:1/97)
  7. (میزان الاعتدال:1/97)
  8. (ایضاً)
  9. (تہذیب التہذیب:3/261)
  10. (تہذیب التہذیب:12/252)
  11. (فتح الباری:5/52)
  12. (تاریخ کبیر:1/56)
  13. تقریب التہذیب