صوفی بزرگ خواجہ حسن بصری، پیدائش:21ھ بمطابق 642ء وفات: 110ھ بمطابق 728ء۔

حسن بصری
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 642ء [1][2][3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [6]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 اکتوبر 728ء (85–86 سال)[7][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بصرہ [6][8]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ (661–)
خلافت راشدہ (642–661)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ انس بن مالک   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص قتادہ بن دعامہ ،  واصل ابن عطا ،  ایوب سختیانی ،  میمون بن سیاہ   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  قاضی ،  قاری   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [9]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث ،  قرأت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آٹھ زاہد


ولادت

ترمیم

عمر فاروق کے زمانۂ خلافت 21ھ میں پیدا ہوئے حضرت عمرؓ نے اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں لعاب ڈالا اور نام بھی انھوں نے رکھا[10]۔ جب آپ حضرت عمر فاروقؓ کے حضور میں لائے گئے تو انھوں نے آپ کو نہایت خوبرو دیکھ کر فرمایا کہ یعنی یہ حسین ہے اس لیے اس کا نام حسن رکھو۔ فاروقِ اعظمؓ نے آپ کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کو دین کے علم کا ماہر بنا اور لوگوں میں محبوب بنا جو بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی اور آپ کو علمِ دین اور فقر میں بلند مرتبہ عطا ہوا۔

نام ونسب

ترمیم

حسن نام، ابوسعید کنیت، والد کا نام یسار تھا، علمی کمالات کے لحاظ سے سرخیل علما اوراخلاقی وروحانی فضائل کے اعتبار سے سرتاج اولیاء تھے۔ ان کے والدین غلام تھے، ان کی غلامی کے بارے میں مختلف بیانات ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ ان کے والد میسان کے قیدیوں میں تھے، انس بن مالک کی پھوپھی ربیع بنت نصر نے خرید کر آزاد کیا تھا دوسری روایت یہ ہے کہ ان کے والد اوروالدہ دونوں بنی نجار یعنی ایک انصاری کی غلامی میں تھے، انھوں نے بیوی کے مہر میں بنی سلمہ کو دے دیا تھا، بنی سلمہ نے ان کو آزاد کر دیا، تیسری روایت یہ ہے کہ ان کے والد حضرت زید بن ثابتؓ کے غلام تھے اوران کی ماں ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی لونڈی تھیں، ان اختلافات سے قطع نظر کرکے اتنا مسلم ہے کہ یسار اوران کی بیوی لونڈی غلام تھے اورجیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا آخری روایت زیادہ مستند ہے۔

ام المومنین ام سلمہؓ کی رضاعت

ترمیم

حسن بصری آخری عہد فاروقی میں جب کہ حضرت عمرؓ کی خلافت کو دوسال باقی رہ گئے تھے یعنی 21ھ میں پیدا ہوئے، ام المومنین ام سلمہؓ کی غلامی کی نسبت سے ان کو وہ شرف میسر ہوا جو کم خوش قسمتوں کے حصہ میں آیا ہوگا، ان کی ماں لونڈی تھیں، اس لیے اکثر گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں، جب وہ حسن بصری کو چھوڑ کر کسی کام میں لگ جائیں اور وہ رونے لگتے تو حضرت ام سلمہؓ ان کو بہلانے کے لیے چھاتی منہ میں دے دیتیں پھر ان کی ماں لوٹ کر دودھ پلاتیں، اس طرح اُن کو ام المومنین کی رضاعت کا شرف حاصل ہوا۔ حسن بصری حضرت ام سلمہؓ کے سایہ شفقت میں پلے تھے ان کے علاوہ دوسری ازواج مطہرات کے گھروں میں بھی ان کی آمد ورفت رہتی تھی ان کا خود بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت تک جب کہ ان کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی وہ بے تکلف ازواج مطہرات کے گھروں میں آتے جاتے تھے۔ [11]

القابات

ترمیم

لقب خواجہ خواجگان، امام الاولیاء، امام المحدیثین۔[10]۔

ابتدائی حالات

ترمیم

ابتدا میں آپ جواہرات بیچا کرتے تھے۔ اس لیے حسن لولوئی کے نام سے مشہور تھے۔ اس پیشے سے آپ نے بہت روپیہ کمایا۔ لیکن جب عشق الہی کا غلبہ ہوا تو سارا روپیہ راہ خدا میں لٹا دیا اور گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہو گئے۔ خوف الہی سے ہر وقت روتے رہتے تھے۔ کثرت گریہ کے باعث آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ مزاج میں انکسار بہت تھا۔ آپ کے نزدیک زہد کی بنیاد حزن و الم ہے۔تصوف میں خوف و الم کا مسلک آپ ہی سے منسوب ہے۔ تمام اکابر صوفیاءآپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں۔ آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی۔

خرقہ خلافت

ترمیم

آپ علی بن ابی طالب کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ان سے خرقہ فقر پایا۔ شاہِ ولایت امیر المومنین علی بن ابی طالب نے حسن بصری کو وہ خرقۂ خاص مع کلاہِ چہار ترکی عنایت فرمایا جو انھیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ساتھ ہی اپنی نگاہِ فقر سے ظاہری و باطنی علومِ اسرارِ الٰہیہ عطا کر کے خلافتِ کبریٰ سے نوازااور ذکرِ کلمہ طیبہ بطریق نفی اثبات جیسا کہ علی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوا تھا، وہ آپ کو سکھایا اور آپ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔[12]

امام مزی تہذیب الکمال میں لکھتے ہیں یونس بن عبید اللہ نے کہا کہ میں نے حسن بصری سے پوچھا ابو سعید آپ روایت بیان کرتے ہوئے یہ کیوں فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاحالانکہ یقیناً آپ نے ان کا عہد نہیں پایا تو انھوں نے جواب دیا اے بھتیجے تم نے مجھ سے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے مجھ سے کسی اور نے نہیں پوچھی۔ اگر میرے نزدیک تمھاری خاص حیثیت نہ ہوتی تو میں تمھیں بیان نہ کرتا۔ میں جس زمانے میں ہوں وہ تمھارے سامنے ہے (وہ حجاج بن یوسف کا دور تھا)۔ ہر وہ روایت جس میں تم نے مجھ سے سنا کہ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا وہ دراصل علی بن ابی طالب سے مروی ہے، مگر یہ کہ میں ایسے زمانے میں ہوں جس میں علی بن ابی طالب کا تذکرہ مجبوراً نہیں کر سکتا۔[13]

تذکرۃ الاولیاء میں خواجہ شیخ فرید الدین عطار لکھتے ہیں کہ خواجہ حسن بصری نے ایک سو بیس صحابہ کرام کی زیارت کی  جن میں سے   ستر بدری صحابہ  تھے۔

سلسلہ قادریہ اور سلسلہ چشتیہ آپ کے وسیلہ سے علی بن ابی طالب سے جاملتا ہے۔ تصوف میں آپ ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سنت نبوی کے سخت پابند تھے۔

علمی مقام

ترمیم

امام حسن بصری تفسیر و حدیث میں امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ علمِ ظاہر و باطن کے علاوہ آپ زہد و ریاضت میں بھی کامل تھے۔ شب و روز یادِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ منقول ہے کہ ستر برس تک سوائے عذرِ شرعی کے آپ کا وضو نہ ٹوٹا اور آپ کبھی بے وضو نہ رہے۔ یہاں تک کہ مرتبۂ کمال تک پہنچے۔ آپ خشیتِ الٰہی کے سبب اس قدر گریہ کرتے کہ آپ کی آنکھیں کبھی خشک نہ دیکھی گئیں، یہاں تک کہ روتے روتے آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ حضرت امام حسن بصری کا معمول تھا کہ ہفتہ میں ایک بار وعظ فرمانے کے علاوہ زیادہ وقت تنہائی اور گوشہ نشینی میں گزارتے۔ آپ کا وعظ اکثر دل کے خطروں اور اعمال کی خرابیوں اور نفس کے وسوسوں و خواہشات سے متعلق ہوا کرتا تھا۔ آپ کے وعظ میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی جن میں اپنے وقت کے تمام علما و اولیاء شامل ہوتے۔ رابعہ بصری بھی آپ کے مواعظ سے اکتسابِ فیض کرتیں۔ جب آپ کا ذکر محمد باقر کے سامنے ہوتا تو وہ فرماتے حسن کا کلام انبیا علیہم السلام کے کلام کے مشابہ ہے۔ بلال بن ابی بردہ فرمایا کرتے تھے میں نے حسن بصری سے زیادہ کسی کو صحابہ کرامؓ سے مشابہ نہیں پایا۔ ایک شخص نے کسی بزرگ سے سوال کیا کہ حسن بصری کو ہم لوگوں پر کس وجہ سے بزرگی اور سرداری ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ تمام مخلوق اس کے علم کی حاجت مند ہے اور اس کو سوائے خالق کے کسی کی حاجت نہیں۔ دین میں سب اس کے محتاج ہیں، اس سبب سے وہ سب کا سردار ہے۔[14]

علمی کمالات

ترمیم

حسن بصری ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے جب کہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی اورایسے مقام پر ان کی نشو و نما ہوئی تھی جہاں کی گلی گلی علوم نبوی کا مخزن تھی، پھر انھیں صحبت ایسے بزرگوں کی میسر آئی جو تعلیماتِ اسلامی کا زندہ نمونہ اوراخلاق نبوی کی مجسم تصویر تھے اس لیے ان کا دامن علم و عمل فضل وکمال اورزہد وورع جملہ اخلاقی اورروحانی فضائل سے مالا مال ہو گیا، علامہ ابن سعد لکھتے ہیں۔ کان الحسن جامعاً عالماً عالیاً رفیعاً فقیھاً ماموناً، عابداً، ناسکاً، کبیرالعلم فصیحا جمیلا وسفیاً [15] حسن بصری جامع کمالات تھے، عالم تھے، بلند مرتبت رفیع المنزلت تھے، فقیہ تھے، مامون تھے، عابد وزاہد تھے، وسیع العلم تھے، فصیح و بلیغ اورحسین وجمیل تھے، غرض وہ جملہ ظاہری اورباطنی نعمتوں سے مالا مال تھے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں، حافظ، علامۃ من بحور العلم، فقیۃ النفس، کبیر الشان، عدیم النظیر، ملیح التذکیر، بلیغ الموعطۃ، راس فی انواع الخیر[16] علامہ نووی لکھتے ہیں کہ وہ مشہور عالم تھے ان کی جلالتِ شان پر سب کا اتفاق ہے۔ [17]

اکابر علما کی رائے

ترمیم

اس عہد کے تمام علما اورارباب کمال کا ان کی جلالت پر اتفاق ہے، امام شعبی کہتے تھے کہ میں نے اس ملک (عراق) کے کسی شخص کو بھی ان سے افضل نہیں پایا، قتادہ لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ اس شخص (حسن بصری) کا دامن پکڑو میں نے رائے میں اس سے زیادہ کس شخص کو عمر بن الخطابؓ کے مشابہ نہیں دیکھا، اعمش کہتے تھے کہ حسن حکمت کو محفوظ رکھتے تھے اوراس کو بولتے تھے، امام باقر فرماتے تھے کہ ان کی باتیں انبیا کی باتوں کے مشابہ ہیں، غالب القطان کہتے تھے کہ اس عہد کے علما پر حسن کو ایسی ہی فضیلت حاصل تھی جیسے طیور میں باز کو گوریوں پر ہوتی ہے، جو شخص اس زمانے کے سب بڑے عالم کو دیکھنا چاہے اسے حسن کو دیکھنا چاہیے، عمرو بن مرہ کہتے ہیں کہ مجھے اہل بصرہ پر حسن اورمحمد دوشیخوں کی وجہ سے رشک ہے، یونس بن عبید اللہ اورحمید الطویل کہتے تھے کہ میں نے بہت سے فقہا کو دیکھا؛ لیکن حسن سے زیادہ کسی کو کامل المروۃ نہیں پایا، عطاء بن ابی رباح لوگوں کو ہدایت کرتے تھے کہ تم لوگ اس شخص (حسن) کی طرف مسائل میں رجوع کیا کرو، وہ بہت بڑے عالم، امام اورمقتداء ہیں، امام مالک فرماتے تھے کہ تم لوگ حسن بصری سے مسائل پوچھا کرو؛ کیونکہ انھوں نے محفوظ رکھا اورہم نے بھلادیا، بعض لوگ یہاں تک کہتے تھے کہ اگر حسن نے سن شعور میں عہد صحابہ پایا ہوتا تو یہ بزرگوار رائے میں ان کے محتاج ہوتے۔ [18] اگرچہ حسن بصری جامع العلوم تھے، لیکن ان کی زندگی زیادہ تر زہد وعبادت اورروحانی مشاغل میں بسر ہوتی تھی، اس لیے ان کے روحانی مرتبہ کے مقابلہ میں ان کے علم کی تفصیلات بہت کم ملتی ہیں، تاہم جتنے حالات ملتے ہیں وہ سر سری اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں، ان کو تفسیر فقہ اورحدیث جملہ مذہبی علوم میں یکساں دستگاہ حاصل تھی۔

تفسیر

ترمیم

مفسر کی حیثیت سے انھوں نے کوئی خاص شہرت حاصل نہیں کی، لیکن تفسیر کی تعلیم انھوں نے بڑی محنت سے حاصل کی تھی، بارہ برس کے سن میں وہ حافظ قرآن ہو گئے تھے، ابوبکر الہذالی کابیان ہے کہ جب تک وہ ایک سورۃ کی تفسیر و تاویل اورشان ِنزول وغیرہ سے پوری واقفیت نہ حاصل کرلیتے تھے، اس وقت تک آگے نہ بڑھتے تھے [19] اس محنت نے ان کو قرآن کا بڑا عالم بنادیا تھا اوروہ تفسیر کا درس دیتے تھے۔

حدیث

ترمیم

حدیث میں ان کے درجہ کا اندازہ حافظ ذہبی کے ان الفاظ سے ہو سکتا ہے کہ :وہ علامہ اور علم کے سمندروں میں تھے [20] حدیث میں انھوں نے ان بزرگوں سے فیض پایاتھا جن میں سے اکثر اس فن کے اساطین اوررکن اعظم تھے؛چنانچہ صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ، عبداللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباسؓ، عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ، انس بن مالکؓ، جابر بن معاویہؓ، معقل بن یسار، ابی بکرہؓ، عمران بن حصین اور جندب بجلیؓ سے براہ راست استفادہ کیا تھا اور عمر بن الخطابؓ، ابن کعبؓ، سعد بن عبادہؓ، عمار بن یاسر، ابو ہریرہؓ، ثوبان، عثمان بن ابی العاص اورمعقل بن سنان سے بالواسطہ مستفید ہوئے، صحابہ کے علاوہ اکابر تابعین کی ایک بڑٰ ی جماعت سے سماعِ حدیث کیا تھا۔ [21]

 
بصرہ عراق میں حسن بصری کا مزار مبارک
 
مزار مبارک کا اندرونی حصہ

وصال

ترمیم

یکم رجب 110ھ نواسی89 سال کی عمر میں بصرہ میں انتقال کیا۔[22] آپ کا وصال 4 محرم الحرام ( 8-اپریل 729ء) بروز جمعتہ المبارک کو 111ھ ہوا۔ آپ کا مزار پُر انوار بصرہ (عراق) سے نو میل مغرب کی طرف مقام زبیر پر واقع ہے۔

خلفاء

ترمیم

حضرت خواجہ حسن بصری کے مشهور خلفاء حضرت خواجہ ابو نصر حبیب عجمی اور حضرت شیخ عبدالواحد بن زید هیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118901095 — اخذ شدہ بتاریخ: 18 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب عنوان : Nationalencyklopedin — NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/al-hasan-al-basri — بنام: al-Hasan al-Basri — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب ناشر: انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا انک. — دائرۃ المعارف یونیورسل آن لائن آئی ڈی: https://www.universalis.fr/encyclopedie/hasan-al-basri/ — بنام: BAṢRĪ ḤASAN AL- — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/basri-al-hasan — بنام: al-Hasan Basri — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. عنوان : Encyclopædia Iranica — ناشر: جامعہ کولمبیا — ایرانیکا آئی ڈی: https://www.iranicaonline.org/articles/hasan-basri-abu-said-b-abil-hasan-yasar — بنام: ḤASAN BAṢRI
  6. ^ ا ب http://www.gutenberg.org/files/24314/24314-h/24314-h.htm
  7. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb15124679b — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  8. http://www.encyclopedia.com/article-1G2-3424502155/mutazilah.html
  9. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb15124679b — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  10. ^ ا ب تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 145ناشر مکتبہ الشیخ کراچی http://www.elmedeen.com/read-book-5168#page-122&viewer-text آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)
  11. (ابن سعد، جلد7، ق2)
  12. سیر الاولیاء' سیر الاقطاب
  13. تہذیب الکمال جلد 4 صفحہ 124
  14. ازالۃ الخفا۔ جلد سوم
  15. (ایضاً:115)
  16. (تذکرہ الحفاظ، جلد اول، ص62)
  17. (تذکرہ الحفاظ:1/62)
  18. (ابن سعد، ج7، ق2، تذکرہ حسن بصری)
  19. (شذرات الذہب :1/137)
  20. (تذکرہ الحفاظ:1/62)
  21. (تہذیب التہذیب:2/264)
  22. تاریخ مشائخ چشت از محمد زکریا المہاجر المدنی صفحہ 121 ناشر مکتبہ الشیخ کراچی