اسرائیل ہانگ کانگ تعلقات

اسرائیل ہانگ کانگ تعلقات سے مراد وہ تعلقات ہیں جو اسرائیل اور ہانگ کانگ کے بیچ رواں ہیں۔ اسرائیل ہانگ کانگ میں اپنا قونصل خانہ قائم کر چکا ہے۔ جب کہ ہانگ کانگ کی تل ابیب میں موجود چینی سفارت خانے کے علاوہ ہانگ کانگ معاشی و تجارتی دفتر کے ذریعے بھی اسرائیل میں نمائندگی حاصل ہے۔

اسرائیل ہانگ کانگ تعلقات
نقشہ مقام اسرائیل اور ہانگ کانگ

اسرائیل

ہانگ کانگ

تاریخ

ترمیم

1958ء میں ایک تاجر شخص ویکٹر زیرینسکی ہانگ کانگ میں اسرائیل کااعزازی قونصل مقرر کیا گیا۔ یہ تقرر اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ اسرائیلی کی سفارتی موجودگی کو 1985ء میں رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ تب قونصل عمومی کو ہانگ کانگ اور مکاؤ کے لیے مشترکہ طور پر نامزد کیا گیا تھا۔[1] ہانگ کانگ کی جانب سے تکنیکی کاروباروں کی ابتدا سے دل چسپی ان دو ممالک کے بیچ تعلقات کو مزید تقویت پہنچانے لگا۔ اینویسٹ ایچ کے جو ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقائی حکومت کا ایک محکمہ ہے، اسرائیلی کاروباری ماہرین کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے شروع کردہ کاروباروں نے ایک اضافہ کنندہ پروگرام کے حصے کے طور پر کام کیا جس کا نام اسٹارٹ می اپ ایچ کے ہے۔ اس کے تحت $500,000 کے سرمایہ کی پیش کش، ہانگ کانگ کا ایک دورہ، ایشیائی کاروباری ماہرین کا تربیتی پروگرام اور علاقے کے اہم تکنیکی تقاریب میں شمولیت شامل ہے۔[2]

2015ء میں اسرائیل نے ہانگ کانگ کے ساتھ ایک معاہدے پر دست خط کیا تاکہ ٹیکنالوجی اور تحقیق اور ترقی میں تعاون میں اضافہ کیا جا سکے۔ صنعتی شعبے میں بطور خاص تحقیق اور ترقی کا نیا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ ہانگ کانگ میں نوخیز کاروباری انٹرپرائز سپورٹ اسکیم (ای ایس ایس) کے تحت مالیہ حاصل کرتے ہیں، جس کا نظم انوویشن اینڈ ٹیکنالوجی فنڈ (آئی ٹی ایف) کرتی ہے؛ اسرائیل میں مالیہ فراہمی ملک کی وزارت معیشت و صنعت کے تحت قائم صدر سائنس دان کی دفتر کی جانب سے ہوتی ہے اور اس پروگرام صدر سائنس دان، اسرائیلی انڈسٹری سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ چلاتا ہے۔[3]

2013ء میں ہانگ کانگ کا ارب پتی لی کا شینگ نے اسرائیلی ٹیکنیون کو $130 ملین کا عطیہ دیا تھا۔[4]

اسرائیلی پارلیمان کے صدرنشین یولی ایڈیلسٹین نے 2016ء میں ہانگ کانگ کا دورہ کیا تاکہ اسرائیل اور ہانگ کانگ کے روابط کو تقویت فراہم کی جا سکے۔ انھوں نے ان دونوں کے خوش گوار تعلقات کو خوش آئند قرار دیا۔[5]

2017ء میں کین تسانگ کی زد و کوب کے بعد ہانگ کانگ پولیس اور حامیوں کے ایک اجلاس میں ایک مقرر نے پولیس کی عوامی توہین کو دوسری جنگ عظیم میں یہودی پر مظالم کے مشابہ قرار دیا۔ حالاں کہ ان دو واقعات موازنہ موزونیت سے ماورا تھا، اسرائیل کے قونصل خانے نے 23 فروری 2017ء کو اس مخصوص مقرر کے تبصرے پر تاسف کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں ہانگ کانگ پولیس کے ترجمان نے جواب دیا کہ یہ تبصرے ادارے کی نمائندگی نہیں کرنے۔[6]

سیاحت

ترمیم

ہانگ کانگ کے معتمد برائے تجارت و معاشی ترقی، جنھوں نے اسرائیل کا نومبر 2016ء میں دورہ کیا تھا، نے یہ انکشاف کیا کہ اسرائیل ہانگ کانگ کا مشرق وسطٰی سب سے بڑا دورہ کنندہ بازار کا ذریعہ بنا ہے۔ 2015ء میں کوئی 64,000 اسرائیلی ہانگ کانگ کا دورہ کر چکے ہیں۔ [7]

ہانگ کانگ کی قومی ایئرلائنز کیتھے پیسیفک نے یہ اعلان کیا کہ وہ ہانگ کانگ سے تل ابیب تک پروازوں مارچ 2017ء سے آغاز کرے گی۔[8]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Jewish Community of Hong Kong – The Museum of the Jewish People at Beit Hatfutsot
  2. Israel and Hong Kong step up tech, R&D cooperation
  3. "Israel and Hong Kong step tech, R&D cooperation"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. "The Story Behind a HK Billionaire's $130 Million Donation to the Technion"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. "Hong Kong's links to Israel hailed as 'winning combination'"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  6. Don’t compare police troubles with persecuted Jews, Israeli consulate urges، ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ، 23 فروری، 2017۔
  7. HK Secretary Gregory So visits Israel
  8. Cathay-Pacific to start flights from Hong Kong to Tel Aviv