تبادلۂ خیال:محمدعلی تسخیری

(اسلامی عرفان سے رجوع مکرر)

کتاب’’اسلامی عرفان ‘‘ اسلامی جمہوریہ ایران کے ممتاز اسلامی اسکالر آیت اللہ محمد تقی مصباح یردی کی تصنیف ہے جس میں فاضل مصنف نے اسلامی عرفان جیسے حساس موضوع کو انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ موجود ہے اسلامی عرفان سے دلچسپی رکھنے والے اردودان بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔کتاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر یہاں پر ایک مختصر تعارف پیش کیا جارہاہے۔

تعارف

آج کل جعلی عرفان ایک طرف تصوف کی شکل میں اور دوسری جانب نئےاور پرکشش انداز میں پیش کیا جارہاہے جس کی وجہ حقیقی اسلامی عرفان کو سمجھنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ حقیقی عرفان کی شناخت اور اس کو جعلی عرفانی مکاتب سے الگ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عالم اسلام کے ذمہ دار مسلمان مفکرین کی تصنیفات وتالیفات سے رجوع کیا جائے۔یہ کتاب ’’اسلامی عرفان ‘‘ عرفان کے اسلامی تصور اور اس کی خصوصیات واضح کرنے کے لیے تحریر کی گئی ہے۔ یہ کتاب ان مباحث پرمشتمل ہے جو آیت اللہ محمدتقی مصباح یزدی نے مختلف مواقع اور محافل میں عرفان کے موضوع پر بیان کیے۔

کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں عرفان کے بارے میں کلیات، جیسے انسانی خواہشات اور ان کا ارادی اور غیر ارادی ہونا، عرفانی خواہشات اور بعض سوالات کے جوابات (جیسے عرفان کیا ہے اور عارف کسے کہا جاتا ہے و غیر ہ) اور اسی طرح عرفان کا فلسفہ، عقل اور شریعت سے تعلق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پہلا باب

آیت اللہ مصباح یزدی اس باب میں لکھتے ہیں :’’ اخلاق، سیر وسلوک اور عرفان کا حقیقی مطلب بھی یہی ہے کہ انسان اپنے وجود کے اندر جو ایک ناشناختہ طاقت اور استعداد رکھتا ہے اسے خدا کی طرف دھکیلے اپنی جدوجہد کے ذریعے آگاہی کے ساتھ اسےظاہر کرے اور اسے کمال بخشے۔ اس لیے کہا جاسکتاہے کہ حقیقی عرفان ایک انسان کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکے اعلیٰ مقامات تک پہنچنے کے واسطے جدوجہد سے عبارت ہے۔ ‘‘ عرفان کا مقصد اللہ تعالی اور اس کی صفات اور افعال کی حضوری شناخت ا ور معرفت کا حصول ہے جس کا طریقہ قلبی ادراک اور باطنی دریافت ہے۔ اس بارے میں تفصیلی اور باریک نکات، نیز تصوف و عرفان کے بارے میں بحث اور ان کا عقل و فلسفہ سے تعلق، وہ موضوعات ہیں جو اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب کا اہم حصہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں حقیقی عرفان کی عملی مثال اور اس کی بنیاد پر بعض صوفیانہ مکاتب کی نظری اور عملی جائزہ اور ان کی ردّسے عبارت ہے۔ مؤلف کے مطابق، عدل و انصاف کی پیروی اور حد سے زیادہ خوش فہمی اور غلط فہمی سے اجتناب حقیقت کی تلاش کے عوامل میں شمار ہوتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، عرفانی سیر و سلوک شریعت کے متوازی کوئی مستقل طریقہ نہیں بلکہ یہ اس کا ایک زیادہ دقیق تر اور لطیف تر حصہ ہے جبکہ طریقت اور حقیقت شریعت کے طول اور باطن میں واقع ہیں احکام شریعت کی پیروی سے ہی طریقت کی راہ طے کی جاسکتی ہے۔

دوسرا باب

کتاب کا دوسرا باب صوفیانہ تعلیمات کی تحریف کے موضوع پر ہے۔ اس باب میں اختلافات اور انحرافات کا سرچشمہ، عرفان میں انحراف کے عوامل کا تجزیہ، جعلی عرفانی رجحانات پیدا کرنے میں استعمار کا کردار اور تصوف کی ترویج پر گفتگو کی گئی ہے۔ آیت اللہ مصباح یزدی الہامی مذاہب میں تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ( جن میں کم و بیش عرفانی عناصر پائے جاتے ہیں) اس نکتے کی نشان دہی کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی اس قسم کے خرافات پائے جاتے ہیں جو اسلام کے تمام پہلوؤں کو متاثر کیے ہوئے ہیں۔ اس باب میں ان انحرافات کا دانستہ یا نادانستہ ہونے کے حوالے سے جائزہ اور پہلی صدی ہجری کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں تا کہ عرفان میں تحریفات کے مسئلےکو واضح کیا جاسکے۔ جہالت اور ہواپرستی تحریف کے اصل اسباب ہیں جن کے عوامل و اسباب کو تین پہلوؤں میں دیکھا جاسکتا ہے : باطل فرقوں کی بنیاد رکھنے والے، ان کے اغراض و مقاصد اور سادہ لوح عوام کو پھنسانے اور فریب دینے کے حربے۔ اس سلسلے میں استعمار کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو حقیقی اسلام کے مقابلے میں نئے فرقوں اور نام نہاد تصوف کو فروغ دیتا رہا ہے۔ اس باب میں استعمار کے اس کردار سے متعلق شواہد اور مثالیں پیش کرکے کافی وضاحت کی گئی ہے۔

تیسراباب

تیسرے باب میں اسلامی تصوف کی خصوصیات، انسانی معاشرے میں تصوف کی تاریخ، عقلی تحلیل کی بنیاد پر حقیقی عرفان کے معیاروں کا بیان اور کتاب و سنت کی روشنی میں اسلامی عرفان کی خصوصیات کے علاوہ، انسان کے مادّی اور معنوی پہلوؤں کے متصادم ہونے کے بارے میں امام محمد باقرعلیہ السلام اور امام جعفرصادق علیہ السلام کے بیان کردہ جوابات بیان کرتے ہوئے امام خمینی کا حقیقی عرفان کے ایک نمونےکے طور پر متعارف کیا گیا ہے۔ دیگر مکاتب کی عرفانی تعلیمات سے رجوع کرنا، عرفان اور روحانیت پر عدم انحصار اور عرفانی سیروسلوک کی ہمہ گیری اور تمام پہلوؤں پر مشتمل ہونا اس باب کے دیگر موضوعات ہیں۔ اس باب میں عرفان کی کلی اور عمومی خصوصیات کو عقل اور روایات کی روشنی میں تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے جن میں انسان کی صلاحیتوں پر محیط ہونا، فطرت سے عدم مخالفت اور شریعت سے مطابقت شامل ہیں۔ دنیا کا آخرت سے جدا ہونے کا انحرافی نظریہ اور آخرت کے حصول کے لیے دنیا کو ترک کرنے کا تصور ان خطرناک ترین بدعتوں میں سے ہیں جو اسلامی عرفان میں پیدا ہوئی ہیں۔ بعض حقیقی عرفاء کا سیاسی اور اجتماعی مسائل میں عدم دلچسپی اور دیگر مسالک کی عرفانی تعلیمات سے استفادہ کرنے کا معاملہ اس باب کے دیگر اہم موضوعات میں سے ہیں۔ باب کا اختتام اس عمومی عقلی قاعدہ سے ہوتا ہے کہ ان ہی لوگوں کی پیروی کرنی چاہیے جو راستے اور منزل سے آگاہ ہیں اور معرفت کو ان ہی لوگوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے جو اس کے اہل ہیں۔

چوتھا باب

چوتھے باب کا موضوع ’’ عرفانی مقامات کے حصول کا راستہ ‘‘ ہے۔ راہ کی تشخیص کے لیے عقلی اور نقلی ذرائع کا استعمال اور اس سلسلے میں اہل بیت؊ سے رجوع کرنے کی ضرورت اس باب کے اہم موضوعات میں شامل ہیں۔ عرفانی سیر و سلوک کا اصل مقصد اور آخری منز ل قرب الیٰ اللہ ہے جس کو لقاء اللہ، عنداللہ اور فناء فی اللہ کے عنوانات بھی د ئیے گئے ہیں لہٰذا ’’بندگی‘‘ کے ذریعے سے ’’خود‘‘ کا حجاب اٹھانا ضروری ہے۔اہل معرفت نے اس سلسلے میں منازل و مراحل کو بیان کیا ہے جو تعداد، عنوانات اور کیفیت سے قطع نظر، اس بات کی دلیل ہےکہ انسان کو معنوی كمالات اور مقامات کے حصول کے لیے کیا کوششیں کرنی چاہیے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ان بیان کردہ مراحل کو معصومين علیہم السلام کے فرامین سے مطابقت دی جائے۔

اس باب کی ابتدا میں عقل اور نقل کے ذریعہ صحیح راستے کی شناخت اور اہل بیت علیہم السلام سے رجوع کرنے پر تاکید کے ساتھ سير الی اللہ کی راہ میں حائل اہم رکاوٹوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سير و سلوك کے مراحل مشارطہ، مراقبہ و محاسبہ، مراقبہ کے مراحل، ذكر اور اس کا مقام، نماز اور اس کا خيرالعمل ہونے کا راز اس باب کے موضوعات میں سے ہیں۔ پانچواں باب

کتاب کے پانچویں اور آخری باب میں مسئلہ كشف و كرامت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب کے موضوعات میں حقيقت كشف و مكاشفہ، كرامت و حقيقت اور اس کی ماہیت، عرفان حقيقی اور سير و سلوك اور استاد کی ضرورت شامل ہیں۔

اسلامی عرفان، آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی، مترجم سید کوثر عباس موسوی، کراچی :العرفان پبلی کیشنز پاکستان، 2018ء، 351ص

محمدعلی تسخیری سے متعلق گفتگو کا آغاز کریں

گفتگو شروع کریں
واپس "محمدعلی تسخیری" پر