اسلامی ہوٹل سے مراد ایسی ہوٹلیں ہیں جہاں اسلامی ضیافت کے اصول و معیار کو ملحوظ رکھا جائے، نیز ماکولات و مشروبات کی تیاری اور فراہمی میں شرعی احکام اور فقہ اسلامی کی مکمل رعایت کی جائے۔ بہت سے اسلامی ہوٹلوں میں افراد خاندان کے ٹہرنے کے لیے ضیافت کے عالمی معیارات کے ساتھ ساتھ شرعی پردے اور دیگر عائلی قدروں کی پیروی بھی کی جاتی ہے۔

ابتدا

ترمیم

اسلامی ہوٹلیں قائم کرنے کا خیال اول اول ملائیشیا میں پیدا ہوا، لیکن اس وقت محض حلال غذائیں فراہم کرنے پر اکتفا کیا جاتا تھا اور ہوٹل کے دیگر انتظامی معاملات میں شرعی احکام کی پیروی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ تاہم مسلم سیاحوں کے لیے ایسے ہوٹل بھی غنیمت تھے جہاں حلال غذائیں بآسانی اور معتبر طریقہ سے مل جاتی تھیں، چنانچہ ان ہوٹلوں کو خوب پزیرائی ملی۔[1]

دبئی میں

ترمیم

بعد ازاں دبئی میں اسلامی ہوٹلیں قائم کرنے کے لیے اس خیال کو مزید وسعت اور ترقی دی گئی اور ضیافت کے ترقی یافتہ عالمی معیارات کے ساتھ ساتھ ہر لحاظ سے اسلامی ہوٹل بنانے کی کوشش کی جانے لگی۔

اسلامی قدروں اور شرعی احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلامی ہوٹلیں قائم ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تہذیب کے مثالی خد و خال نئے سانچے میں ڈھلنے لگے۔ اس صورت حال نے مسابقت کی کیفیت پیدا کر دی اور بے شمار اسلامی ہوٹلیں قائم ہوگئیں۔

یہ ہوٹلیں محض مسلم سیاحوں کے لیے کشش کا باعث نہیں ہیں بلکہ ان میں ٹھہرنے والوں میں پچپن سے ساٹھ فیصد زائرین غیر مسلم ہوتے ہیں۔[1][2]

خصوصیات

ترمیم

ان اسلامی ہوٹلوں کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ اعلیٰ درجے کے عائلی ہوٹل ہوتے ہیں جہاں مسلم خاندان کی عائلی اقدار کا پورا خیال رکھا جاتا ہے اور اسباب راحت و آرام کی فراہمی میں اسلامی قدروں کی رعایت کی جاتی ہے۔ یہاں حیا سوز مناظر نظر نہیں آتے نیز الکحل کے مشروبات پر طعام گاہوں اور کمروں ہر جگہ پابندی ہوتی ہے۔

نیز بعض ہوٹلوں میں اسلامی قدروں کا اس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ بسا اوقات انھیں دیکھ کر کسی شرعی احتساب گاہ کا تصور ابھرنے لگتا ہے جہاں تمام معاملات کی باگ ڈور شریعت اسلامی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ حتی کہ بعض ہوٹل سالانہ زکوۃ کے اندراج کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور مالی امور میں محض اسلامی بنکوں سے معاملات کرتے ہیں۔

ممتاز خصوصیتیں

ترمیم
  • تمباکو و سگریٹ نوشی اور الکحل کے جملہ مشروبات پر پابندی
  • طعام گاہوں میں حلال غذاؤں کی فراہمی
  • شادی شدہ جوڑا ہو تو نکاح نامہ کی موجودگی لازمی ہے
  • تمام مہمانوں کو اسلامی طریقہ پر خوش آمدید کہا جاتا ہے
  • شبینہ محفلوں اور رقص گاہوں پر پابندی
  • پس منظر موسیقی کی بجائے پرندوں یا آبشاروں وغیرہ کی آوازیں
  • خواتین کے لیے علاحدہ حوض پیراکی اور جم خانہ وغیرہ
  • بعض ہوٹلوں میں خواتین کے لیے منزلیں بھی مخصوص کر دی جاتی ہیں جہاں خدمت گار خواتین ہوتی ہیں۔
  • اسی طرح بعض ہوٹلوں میں مسلم لباس بھی لازمی ہے۔

گوکہ ان ہوٹلوں میں غیر مسلم عملہ بھی موجود ہے لیکن وہ بھی ان شرعی اصول و ضوابط کا خیال رکھنے کا پابند ہے۔[1][3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ "دبئی میں اسلامی ہوٹلوں کا ہمہ گیر نمونہ پیش کیا جا رہا ہے"۔ الإمارات اليوم۔ 2010-05-23۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  2. "اسلامی ہوٹلوں کا مختصر تعارف"۔ ایشیا ٹریول۔ 14 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. "دبئی کی اسلامی ہوٹلیں اہل خلیج کے لیے کشش کا باعث"۔ الجزيرة.نت۔ 2009-10-26۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ