دبئی

متحدہ عرب امارات کا ایک شہر

دبئی (/duːˈbaɪ/، doo-BY؛ عربی: دبي، رومانی: Dubayy، IPA: [dʊˈbajj]، خلیج عربی تلفظ: [dəˈbaj]) متحدہ عرب امارات (UAE) کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے اور اس کا دار الحکومت ہے۔ امارات دبئی، متحدہ عرب امارات کے 7 امارات میں سب سے زیادہ آبادی والا۔ 18ویں صدی میں ایک چھوٹے سے ماہی گیری گاؤں کے طور پر قائم کیا گیا، شہر نے 21ویں صدی کے اوائل میں سیاحت اور عیش و آرام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تیزی سے ترقی کی، جس میں دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ فائیو اسٹار ہوٹل ہیں اور دنیا کی بلند ترین عمارت برج ہے۔ خلیفہ، جو 828 میٹر (2,717 فٹ) اونچا ہے۔


دبي
میٹروپولس
The skyline of Dubai
The skyline of Dubai
دبئی Dubai
پرچم
دبئی Dubai
قومی نشان
دبئی Dubai is located in متحدہ عرب امارات
دبئی Dubai
دبئی
Dubai
دبئی Dubai is located in خلیج فارس
دبئی Dubai
دبئی
Dubai
دبئی Dubai is located in ایشیا
دبئی Dubai
دبئی
Dubai
Location within the United Arab Emirates##Location within Asia
متناسقات: 25°15′47″N 55°17′50″E / 25.26306°N 55.29722°E / 25.26306; 55.29722
ملک متحدہ عرب امارات
امارتدبئی کا پرچم امارت دبئی
قائم ازآل مکتوم
ذیلی تقسیم
قصبے اور گاؤں
حکومت
 • قسمmunicipality of a بادشاہت
 • Director General of Dubai MunicipalityDawoud Al Hajri
رقبہ[2]
 • میٹروپولس35 کلومیٹر2 (14 میل مربع)
آبادی (Q3 2019)[3]
 • میٹروپولس3,331,420
 • میٹرو~4,000,000
نام آبادیDubaite
منطقۂ وقتمتحدہ عرب امارات میں وقت (UTC+4)
خام ملکی پیداوار2016 تخمینہ
کلامریکی ڈالر 108 billion[4]
فی کسامریکی ڈالر 35,000
ویب سائٹDubai.ae

دبئی اپنی شاندار صنعتوں، تعمیرات و رہائش کے عظیم منصوبہ جات، کھیلوں کے شاندار ایونٹس اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے اندراج کے باعث دنیا بھر میں معروف ہے۔ یہ شہر صنعتوں کے علاوہ سیاحت کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس وقت شہر میں جاری عظیم تعمیراتی منصوبے دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز بنے هوے ہیں۔ دبئی دنیا کے 25 مہنگے ترین شہروں میں بھی شامل ہے۔[5]

تاریخ

ترمیم

1833ء میں بنی یاس قبیلے سے تعلق رکھنے والے تقریباً 800 افراد مکتوم خاندان کی سربراہی میں خلیج کے دہانے پر آ کر آباد ہوئے۔ خلیج ایک قدرتی بندر گاہ تھی اور دبئی جلد ہی ماہی گیری، ہیروں اور سمندری تجارت کا مرکز بن گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک دبئی ایک کامیاب بندرگاہ بن گئی تهی دور دراز کے تاجر وهاں تجارت کی غرض سے آتے تہے۔ ڈئیرا کی جانب خلیج کی سوق (عربی زبان میں بازار) ساحل سمندر پر سب سے بڑی مارکیٹ تھی جس میں 300 دکانیں تھیں جن پر سیاحوں اور کاروباری لوگوں کا مسلسل ہجوم رہتا تھا۔ 1930 تک دبئی کی آبادی تقریباً 20،000 تھی جن میں چوتھائی حصہ تارکین وطن لوگوں کا تھا۔ 1950 کے عشرے میں خلیج تہ نشین گاد اور کیچڑ سے بھرنا شروع ہو گئی جو غالباً بحری جہازوں کے بڑھتی ہوئی تعداد میں بندر گاہ کو استعمال کرنے سے ہوا۔ مرحوم حاکم دبئی شیخ رشید بن سعید المکتوم نے خلیج کی اس گزرگاہ کو کھود کر گہرا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک مہنگا اور دوراندیش منصوبہ تھا۔ اس کارروائی کے نتیجہ میں دبئی میں نجی جہازوں کے کنٹرول کی استعداد میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاً اس نے دبئی کو ایک بڑے تجارتی اور دوبارہ ایکسپورٹ ہونے والی اشیاء کے مرکز کی حیثیت سے نئی قوت عطا کی۔

1994 میں تیل کی دریافت کے بعد شیخ رشید نے تیل کی آمدنی کو دبئی کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لیے استعمال کیا۔

دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں ایک نئی پورٹ اور ٹرمینل بلڈنگ تعمیر کی گئی۔ رن وے کے وسعت کے منصوبہ کی تکمیل قابل عمل آئی تاکہ ہر قسم کے جہازوں کی نقل وحمل کو برداشت کر سکے۔ دنیا میں انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی سب سے بڑی بندرگاہ جبل العلی کے مقام پر تعمیر کی گئی اور بندرگاہ کے گرد فری زون بنایا گیا۔ اب دبئی کی تعمیر کے فارمولہ کا انکشاف ہر ایک پر واضع ہونے لگا ہے۔ ایک واضح تصور والی قیادت – اعلیٰ معیاری بنیادی ڈھانچہ، نوآبادیوں کے لیے دوستانہ ماحول، ذاتی اور کاروباری منافع پر صفر ٹیکس اور بہت کم درآمدی ڈیوٹی۔ نتیجتاً دبئی، مصر سے لے کر برّ صغیر اور جنوبی افریقہ سے لے کر اب سی آئی ایس کہلانے والے ممالک تک پھیلے ہوئے خطے کا، تجارتی اور سیاحی مرکز بن گیا۔ 1940 سے شیخ زید بن سلطان النہیان نے جو اس وقت ابوظھبی کے حاکم تھے اور شیخ رشید بن سعید المکتوم نے اس خطے میں عرب امارات کی ایک فیڈریشن بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ 1970 میں جب دوبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ اور 1972 میں راس الخیمیہ، متحدہ عرب امارات بنانے کے لیے متحد ہوئے تو ان کا یہ خواب تعمیر و تعبیر ہوا۔

شیخ زاید جو یو اے ای کے پہلے صدر تھے اب تک یہ پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی سربراہی میں یو اے ای دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک بن چکا ہے۔ جس کا سالانہ فی کس جی ڈی پی 17000 امریکی ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہوا ہے۔

تہذیب و تمدن

ترمیم
فائل:Dubaicitynasa.jpg
دبئی شہر کا خلا سے منظر

دبئی کی تہذیب و ثقافت کی جڑیں اسلامی روایات سے جا کر ملتی ہیں اور دبئی کے باشندوں کے طرز زندگی کی مظہر ہیں۔ تاہم امارات ان غیر ملکیوں کا جو مذہب اسلام کے پابند نہیں، احترام کرتا ہے اور ان کو خوش آمدید کہتا ہے۔ بیرونی تارکین وطن اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں مکمل طور پر آزاد ہیں اور وہاں کوئی بھی لباس پہننے کی آزادی ہے۔ یہاں خواتین سے تفریقی سلوک نہیں کیا جاتا۔ خوش اخلاقی اور مہمان نوازی دبئی کی لاتعداد خوبیوں میں سے ایک ہے۔ حاکمین وقت اپنی ثقافت کو قائم رکھنے میں بہت مستعد ہیں اور اس کے لیے انھوں نے کئی عملی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سے ایک اپنے ماضی کے عکاس کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ باز سے شکار، اونٹوں کی دوڑ اور تکونے بادبانوں والی کشتیوں کی تیراکی اب بھی دبئی میں بہت مقبول ہے۔

ملک کی سرکاری زبان عربی ہے۔ لیکن اکثر لوگ دفتروں سے باہر انگریزی میں بات چیت کرتے ہیں۔ مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ دبئی میں رہتے ہیں اور انگریزی کو روز مرہ کی بات چیت میں ایک مشترکہ زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اکثر سڑکوں اور دکانوں کے سائن بورڈ اور ہوٹلوں کے مینو عربی اور انگریزی دونوں میں لکھے ہوتے ہیں۔

امارات کے مقامی لوگ عموماً روائیتی لباس استعمال کرتے ہیں۔ مرد حضرات سفید لمبا چوغہ <ڈشڈشا یا کھندورا> اور اس کے ساتھ سفید یا سرخ چیک والا رومال 'غترہ، شیماغ' پہنتے ہیں۔ عوامی مقامات پر خواتین عبایا، ایک کالے رنگ کا برقع، جو ان کے عام لباس کو ڈھانپ لیتا ہے، استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنے سروں کو سکارف سے بھی ڈھانپتی ہیں۔

سیاحوں کی فوٹو گرافی قابل قبول ہے اور ان سے تمام خوبصورت چیزوں کی تصویر کشی کی توقع کی جا تی ہے۔ عام طور پر لوگوں کی تصویر اتارنے سے پہلے ان سے پوچھنا ایک مہذب طریقہ خیال کیا جاتا ہے جبکہ حکومتی عمارتوں، فوجی تنصیبات بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کی تصویر کشی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مسلمان عورتوں کی تصویر لینا ناپسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔

عربی کھانے پکانے کے طریقے مختلف اقسام اور مختلف ممالک، مثلاً مراکش، شام، افغانستان، لبنان، تیونس اور دوسرے کئی ممالک سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ پورے شہر میں دکان دار شوارمہ بیچتے ہیں، اس کی تیاری میں دنبہ یا مرغی کے گرم روسٹ ہوتے ہوئے گوشت سے قتلے کاٹ کر سینڈوچ میں استعمال کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ اس میں سبزیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ تازہ جوس کے دکان داروں کو کسی بھی قسم کے تازہ جوس مثلاً انناس، کیلا، آم یا مکس کاک ٹیل کا آرڈر دیا جا سکتا ہے۔ شراب صرف لائسنس شدہ ریسٹورنٹس یا میے خانوں پر ہی فروخت کی جاتی ہے۔ یہ کچھ تفریحی کلبوں میں بھی دستیاب ہے۔ زیادہ تر اقامتی یا کاروباری مقامات پر شیشہ پائپ سے اسموکنگ کی جاتی ہے۔ یہ پانی کے روایتی پائپ ہوتے ہیں جس میں سٹرابری اور سیب کی خوشبو والا تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً کیفے یا ریسٹورنٹ میں بیٹھنے کے دوران میں لوگ شیشہ سے لطف اندوز ہوتے هیں۔

سیاحتی مرکز

ترمیم
 
جزائر نخیل، دبئی کا عظیم الشان رہائشی و سیاحتی منصوبہ

اوائل 1990ء میں دبئی نے صحتمند اور اعلیٰ سیروسیاحت کا بین الاقوامی مرکز بن کر، عملی طور پر ابهر کر سامنے آنے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کے بعد سیروسیاحت پر کیے جانے والے اخراجات نے پہلے سالوں سے بہت زیادہ منافع دیا۔2000 میں مہمانوں کی تعداد حیران کن طور پر تین ملین تک پہنچ گئی جو دبئی کی آبادی 850000 سے بھی تجاوز کر گئی۔

دبئی اب ایک ایسا شہر ہے جس کے قابل فخر ہوٹلوں، اعلیٰ معماری صنعت، دنیا کی بہترین مہمان نوازی اور کھیل کی تفریحات کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ جمیرہ کے کنارے واقع خوبصورت برج العرب ہوٹل دنیا کا واحد سیون سٹار ہوٹل ہے۔ امارات ٹاور ان بے شمار عمارات میں سے ایک عمارت ہے جو اس تیزی سے بڑھتے ہوئے شہر میں تجارتی اعتماد کا احساس دلاتی ہے۔ 350 میٹر بلند آفس ٹاور مشرق وسطی اور یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے۔ اس کے علاوہ دبئی میں دنیا کا سب دے بڑا برج ' برج خلیفہ' تعمیر کیا گیا ہے جو اس وقت دنیا کی بلند ترین امارت ہے۔ دبئی میں کھیلوں کے بڑے بین الاقوامی مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ دبئی ڈیزرٹ کلاسک پروفیشنل گالف ایسوسی ایشن ٹور میں ایک اہم مقام کا حامل ہے۔ دبئی اوپن، ایک اے ٹی پی ٹورنامنٹ، دبئی ورلڈ کپ، دنیا کی مہنگی ترین گھڑدوڑ ہر سال ہزاروں شائقین کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

فائل:DubAymx.JPG
دبئی کا مشہور عالم "برج العرب" ہوٹل

دبئی کو "مشرق وسطی کا شاپنگ دار الخلافہ" کہا جاتا ہے۔ اتنے زیادہ شاپنگ مال اور بازاروں کی موجودگی میں مصنوعات کی ناقابل سبقت قیمت ڈھونڈنے کے لیے اس سے بہتر جگہ نہیں مل سکتی ہے۔

دکان دار اپنی اشیاء کی قیمتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کم کر کے لگاتے ہیں۔ بہت کم درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس کے بغیر شاپنگ کی وجہ سے اشیاء سستے داموں دستیاب ہیں۔ سونا، زیورات، اعلیٰ فیشن، الیکٹرونکس، قالین اور ہاتھ کی بنی ہوئی اشیاء اتنی حیرت انگیز کم قیمت پر ملتی ہیں جن کی نظیر دنیا میں کہیں بھی اور نہیں۔ دبئی کے بے شمار شاپنگ کے مراکز ہر قسم کے گاہک کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ گاڑیاں، ملبوسات، زیوراhkjت، الیکٹرانکس، فرنشنگ، کھیلوں کا سامان اور کئی دوسری اشیاء آپ کو ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہو سکتی ہیں۔

دبئی کے بازاروں کی سیر بہت سنسنی خیز ہے۔ شاپنگ کے تمام اس عرصے میں بازاروں کا سرگرم ماحول، روائیتی انداز اور قیمتیں طے کرانا خریداروں کو مستعد رکھتا ہے۔

ذرائع نقل و حمل

ترمیم

دبئی ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں جانے کے لیے یورپ افریقہ اور ایشیا کے بڑے بڑے شہروں سے ہوائی پروازیں سیدھی دبئی کو جاتی ہیں۔ دبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا دنیا کے دس چوٹی کے ہوائی اڈّوں میں شمار ہوتا ہے اور اب اس کی گنجائش سالانہ 14 ملین افراد کی نقل و حمل کے لیے کافی ہے۔ اب اس گنجائش کو 70 ملین تک لے کر جانے کا منصوبہ ہے۔ دبئی ہوائی اڈے کے دو ٹرمینل ہیں جو ہوائی اڈّے کی مخالف سمت میں قائم ہیں۔ وہاں پر کرائے کی گاڑیاں، ہوٹل کی بکنگ اور کرنسی کے تبادلے کی سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ ڈیوٹی فری شاپس آنے اور جانے، دونوں ہالوں میں قائم کی گئی ہیں۔ دبئی انٹرنیشنل ائرلائن ٹریول ایجنسی کی عمارت میں دبئی میں موجود تمام فضائی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں۔

اضافی معلومات

ترمیم

بجلی: بجلی کی سپلائی 220/240 وولٹ اور 50 سائیکل کی ہوتی ہے۔

ملازمت کے مواقع: چونکہ دبئی متحدہ عرب امارات کا سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرتا ہوا شہر ہے اور متحدہ عرب امارات کی جی ڈی پی دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتی ہے جن کی مالی پوزیشن بہت مستحکم ہے تو اس لیے روزانہ کی بنیاد پر بہت سے لوگ دبئی میں ملازمت حاصل کرنے کے بیرون ممالک سے آتے ہیں۔تاہم سیاحتی ویزہ پر دبئی میں آنے والے سیاحوں پر کسی بھی قسم کی ملازمت کرنے پر پابندی ہے۔

پانی: نلکے کا پانی پینے کے لیے بالکل محفوظ ہے۔ لیکن کچھ سیّاح عموماً بوتلوں کے پانی کو پسند کرتے ہیں۔ یہ پانی زیادہ تر ہوٹلوں او ریسٹورنٹوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

ٹیلی فون: دبئی کے اندر اور باقی دنیا کے ساتھ مواصلات کا بہترین نظام استوار ہے۔ دبئی کے اندر ٹیلی فون کالیں مفت ہیں۔ موبائل کا سٹینڈرڈ جی ایس ایم ہے۔

فوٹوگرافی: عام سیّاحتی فوٹوگرافی کی اجازت ہے۔ مسلمان عورتوں کی تصویر لینا سخت ناپسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مردوں کی تصویر اتارنے سے پہلے ان سے پوچھنا ایک مہذب طریقہ خیال کیا جاتا۔

بینک: دبئی میں اکثر بین الاقوامی بینکوں کی شاخیں قائم کی گئی ہیں جو انفرادی اور اجتماعی کاروبار کی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ رقوم کا انتقال آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ زر مبادلہ پر کنٹرول درحقیقت بالکل مفقود ہے اور درہم آسانی اور آزادی سے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ بنکوں کے اوقات 08:00 سے 13:00 ہفتہ سے بدھ تک ہوتے ہیں۔ کچھ بنک 16:30 سے 18:30 تک کھلے رہتے ہیں۔ جمعرات کے دن بنک 08:00 سے 12:00 بجے تک کام کرتے ہیں۔

مقامی وقت: یو اے ای کا مقامی وقت جی ایم ٹی سے تین گھنٹے آگے ہے۔

موسم: دبئی کا موسم منطقہ حارہ سے ملاجلا اور خشک ہے۔ بارش کبھی کبھار ہوتی ہے جو عام طور پر موسم سرما میں پانچ دن تک ہوتی ہے۔

تقاریب: دبئی میں دنیا کی مشہور کھیلوں اور تفریحی تقاریب کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جو خاص طور پر نومبر سے مارچ تک ہوتی ہیں۔ دبئی شاپنگ فیسٹیول کے دوران میں دبئی میں تین بہت ہی اعلیٰ معیار کی تقاریب کی میزبانی کی جاتی ہے: دبئی ڈیزرٹ کلاسک، پروفیشنل گاف ایسوسی ایشن(PGA) کا ایک سٹاپ ہے – دبئی اوپن جو ایک اے پی ٹی کی تقریب ہے اور دبئی ورلڈ کپ جو دینا کی امیر ترین گھڑدوڑ ہے۔

جرائم: دبئی عام طور پر ایک محفوظ اور نہایت دوستانہ شہر کہا جاتا ہے۔ وہاں جرائم بہت کم ہیں۔ سیّاحوں اور مقامی لوگوں کو آدھی رات تک بھی چہل قدمی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

مہم جوئی: جن لوگوں کی زندگی ہیجان انگیزی کے ارد گرد گرد گزرتی ہے ان کے لیے دبئی میں بنجی جمپنگ، سکائی ڈائیونگ، پیرا گلائیڈنگ، موٹو کراس، واٹر سپورٹس، ماونٹینرنگ اور کئی دیگر سہولیات دستیاب ہیں۔

ڈرائیونگ لائسنس: یو اے ای کا مستقل ڈرائیونگ لائیسنس رہائیشی ویزا کی گرانٹ کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مختلف ممالک کے ڈرائیونگ لائسنس کے حامل لوگ یو اے ای کے اندر کار کرائے پر لے کر چلا سکتے ہیں۔ تاہم کار کو کرائے پر دینے سے قبل لائسنس چیک کیا جاتا ہے

بین الاقوامی تعلقات

ترمیم

جڑواں شہر

ترمیم

دبئی کے مندرجہ ذیل جڑواں شہر ہیں۔

  برشلونہ، کاتالونیا، ہسپانیہ (2006)[6]
  بوسان، جنوبی کوریا (2006)[7]
  ڈیٹرائٹ، مشی گن، ریاستہائے متحدہ (2003)[8]
  فرینکفرٹ، ہیسے، جرمنی، 2005 سے بطور دوستی شہر[9]
  گولڈ کوسٹ، کوئنزلینڈ، کوئنزلینڈ، آسٹریلیا (2001)[10]
  شنگھائی، چین (2009)[11]
  استنبول، ترکی (1997)[12]
  پادانگ، انڈونیشیا (2015)[13]
  پیانگ یانگ، شمالی کوریا[14]
  کوالا لمپور، ملائیشیا (2010)[15]
  ڈنڈی، سکاٹ لینڈ، اسکاٹ لینڈ، مملکت متحدہ (2004)[16]

متعلقہ مضامین

ترمیم

متحدہ عرب امارات

برج العرب

برج دبئی

جزائر نخیل

حوالہ جات

ترمیم

دبئی شاپنگ فیسٹیول ویب گاہ، اردوآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ meradsf.com (Error: unknown archive URL)

  1. "Population Bulletin" (PDF)۔ Dubai Statistics Center, Government of Dubai۔ 2015۔ 07 اپریل 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 نومبر 2018 
  2. Dubai Georgraphy page from dubai.com. Retrieved 2019-07-12.
  3. "Dubai Population Are 3.3 Million by Q3-19"۔ www.dsc.gov.ae۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 دسمبر 2019 
  4. "Gross Domestic Product at Current Prices 2016 – Emirate of Dubai" (PDF)۔ 18 اگست 2017 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2017 
  5. روزنامہ جنگ کراچی[مردہ ربط] 25 دسمبر 2006ء
  6. Dubai is sister city to Barcelona، on the municipality's website (in Catalan)۔ Retrieved 28 اکتوبر 2015.
  7. Dubai and Busan are sister cities، on the municipality's website آرکائیو شدہ 18 مارچ 2016 بذریعہ archive.today، 13 نومبر 2006.
  8. Sister Cities Agreement between Detroit and Dubai آرکائیو شدہ 22 دسمبر 2015 بذریعہ وے بیک مشین، 28 ستمبر 2003.
  9. "Partnerships: Frankfurt am Main" (بزبان جرمن)۔ Council of یورپی Municipalities and Regions۔ 8 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2015 
  10. Dubai and Gold Coast are sister cities، on the municipality's website آرکائیو شدہ 13 فروری 2015 بذریعہ وے بیک مشین۔ Retrieved 28 اکتوبر 2015.
  11. Dubai is sister city to Shanghai، on the municipality's site آرکائیو شدہ 3 مارچ 2016 بذریعہ وے بیک مشین، 27 جولائی 2009.
  12. Dubai and Istanbul are sister cities، on the municipality's website آرکائیو شدہ 15 اکتوبر 2016 بذریعہ وے بیک مشین (in Turkish)، 22 مارچ 1997.
  13. "Wako: Kerjasama Padang-Perth-Dubai Saling Menguntungkan"۔ ANTARA (بزبان الإندونيسية)۔ 15 ستمبر 2015۔ 27 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 دسمبر 2015 
  14. Dubai is listed as one of Kuala Lumpur's sister cities آرکائیو شدہ 30 اگست 2013 بذریعہ وے بیک مشین
  15. "اسکاٹ لینڈ's links with UAE celebrated in Dundee"۔ 25 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2020 

بیرونی روابط

ترمیم