توبہ : یہ عربی زبان کا لفظ ہے ،اس کے حقیقی معنی رجوع کرنے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں توبہ سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے اس سے لوٹ کر قابل تعریف شے کی طرف آجائے ۔[1]

ترک گناہ کا عہد۔ قرآن میں یہ لفظ بار بار آیا ہے۔ اور خدا سے بصدق دل گناہوں کی معافی پر زور دیا گیا ہے۔ امام غزالی کے قول کے مطابق توبہ کی تین شرطیں ہیں۔

1۔ گناہ کا سرزد ہونا۔

2۔ گناہ پر نادم ہونا اور پھر

3۔ یہ عہد کرنا کہ آئندہ ہرگز گناہ نہیں کروں گا۔

اس صورت میں خدا توبہ کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے۔ البتہ مرگ کی توبہ بے سود ہوتی ہے۔ تصوف کی اصطلاح میں توبہ ایک روحانی قلب ماہیت ہے۔ جس کے بغیر راہ طریقت پر نہیں چلا جا سکتا۔

خالص توبہ ترمیم

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ دور کر دے اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔(التحریم:8)۔ خالص توبہ، یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرے،گناہ کرناچھوڑ دے، آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم کرے،اور اپنے گناہوں پر نادم ہو،اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کسی کا کوئی حق چھینا ہے یاکسی کی حق تلفی کی ہے تو اس کو اس کا حق ادا کرے،اگرکسی پر ظلم کیااور ستایا ہے تو اس سے معافی طلب کرے۔

  • سچی توبہ سے بندے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ۔

جاننا چاہیے کہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دن میں سو مرتبہ اللہ کے حضوراپنے گناہوں سے معافی طلب کیا کرتے تھے، حالانکہ آپ اور تمام انبیا کرام علیھم السلام گناہوں سے ہمیشہ پاک تھے۔ اسلام کا عقیدہ ہے کہ وہ تمام معصوم تھے۔ ان سب نے نہ کبھی کوئی گناہ کیا۔ نہ کبھی ہو سکا۔ کیونکہ یہ اللہ عزوجل کا خاص انعام انبیا کے ساتھ مخصوص تھا۔ قرآن پاک کی سورۃ فتح کی دوسری آیت کا مفہوم امت کے لیے ہے۔ اس کو اس معنٰی پر محمول نہ کیا جائے۔ بندے کو چاھیے کہ وہ کثرت سے رب کے حضوراپنے گناہوں کی معافی طلب کرے۔

  • توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک کہ بندہ سکرات کے عالم میں نہ پھنچ جائے،اور جب تک کہ سو رج مغرب سے طلوع نہ ہو،،اور جان کنی کے وقت کی گئی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ مسند احمد میں ہے((ان اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر)) کہ اللہ تعالٰی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے، یعنی آخری سانس کے وقت کی گئی توبہ نا مقبول ہے،
  • اے اللہ کے بندو! توبہ کرنے میں جلدی کرو،کیونکہ موت کا پتہ نہیں کہ کب وہ ہمیں آ دبوچ لے گی،حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کھا تھا" اے میرے بیٹے تو بہ کرنے میں دیری مت کرنا کیونکہ موت اچانک آئے گی۔ اللہ احکم الحاکمین کا فرمان ہے، ومن لم یتب فألئک ہم الظالمون۔ جو تو بہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. رسالہ قشیریہ ،امام ابو القاسم، صفحہ242، اردو ترجمہ پیر محمد حسن، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اسلام آباد

بیرونی روابط ترمیم

قرآن وسنتآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ quran-o-sunnah.com (Error: unknown archive URL) توبہ واستغفار کے تعلق سے بیان سننے کے لیے رجوع ہوں!