اسلم کرتپوری
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اسلم کرتپوری ایک معروف خطاط ہی نہیں بلکہ ممبئی کی اردو دنیائے صحافت کی ایک اہم شخصیت بھی ہیں۔ آپ کی لازوال فنی و صحافتی خدمات کا ایک زمانہ ہی معترف نہیں ہے بلکہ آنے والے نونہالانِ قوم بھی اسے یاد رکھیں گے۔ آپ فن کار ہیں اور جملہ شعبہ ہائے اردو صحافت و طباعت کے فن دان بھی ہیں۔ خطاطی میں لاہوری اسکول سے متعلق ہوتے ہوئے بھی روادار ایسے ہیں کہ کبھی دوسرے مکاتبِ خوشنویسی سے کبھی تعصب نہیں برتا اور اپنے شاگردوں کو بھی اس کی تعلیم دی۔ اسلم کرتپوری نے اسکولی عمر میں ہی خطاط الہند فیض مجدد لاہوری کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، استفادہ کیا، مشق کرتے رہے، الفاظ کی نوک پلک سنوارتے رہے، فیض صاحب کے شاگردِ رشید ثابت ہوئے۔ ان سے اکتسابِ فن کا کبھی کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ آپ نے ممبئی کے بیشتر اردو اخبارات میں خدمات انجام دیں۔ آپ خوشنویس بھی رہے اور تیز نویس بھی۔ ہزاروں صفحات کی کتابت نیز کتابوں اور رسائل کے ٹائٹل ڈیزائن کرچکے ہیں۔ حال ہی میں حکومت مہاراشٹر کی ساہتیہ اردو اکادیمی نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں خصوصی ایوارڈ سے نوازا ہے۔ عبد المجید سالک ؔ صاحب نے ہر چند کہ خطاط الملک تاج زرّیں رقم کی رحلتِ پُراَندوہ پر ایک تعزیتی نوٹ لکھا تھا مگر ہم اسلم صاحب کی تہنیتِ پُرشکوہ کے موقع پر اس کی اک سطر کا حوالہ من و عن دینا پسند کرتے ہیں کہ پیغام میں ایک زبردست ترسیل مخفی ہے۔ ملاحظہ کیجیے : ’’سلاطین کے زمانے میں زیادہ تعجب انگیز نہیں مگر جمہوریت کے اس دور میں جب فن کے قدردان محض لفظی ہمدردی کرتے ہیں خطاط الملک جیسے فنکار کا پیدا ہونا ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور محنت کی دلیل ہے ‘‘۔ اسلم کرتپوری کا سب سے زیادہ قابلِ سپاس کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے استادِفن خطاط الہند فیض مجدد لاہوری کا ’مرقعِ فیض‘ ترتیب دے کر مبتدیان اور کاتبین و خوشنویسان کے لیے ایک لاثانی و رہنما کتاب منصہ شہود پر لے آئی جو ہنوز تشنگانِ علم و فن کے لیے ایک مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ پونہ کے سرکاری ادارہ ’بال بھارتی‘ کے قیام کے بعد پہلی جماعت کی اوّلین کتاب کو جب فیض صاحب اور ان کے شاگردوں مع اسلم صاحب نے سپردِ کتابت کیا تو وہ ازخود خوشنویسی کا ایسا مرقع ثابت ہوئی کہ اکثر لوگوں نے اسی کے سہارے کتابت کے ابتدائی درس بھی حاصل کیے۔ اسلم صاحب 1974ء میں ’اردو کیلی گرافرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر منتخب ہوئے تو اس وقت کاتبوں کے بیشتر مسائل اورالجھنوں کے تعلق سے کئی حل بھی پیش کیے۔ وہ ہر لحاظ سے اس جماعت کو خوش حال دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ اخبارات کو عملۂ کتابت بھی فراہم کرنے کا ذریعہ تھے۔ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کے قیام کے بعد ایک سہ ماہی جریدہ ’نورس‘ جاری ہوا تو اسلم صاحب کو اس کی کتابت و تزئین کے شعبہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس جریدہ کا نام بعد میں ’امکان‘ سے تبدیل ہو گیا۔ وہ جب تک جاری رہا اپنے دور کے لحاظ سے بالکل منفرد اندازِ پیش کش لیے ہوئے تھا۔ گذشتہ بیش از چالیس برسوں سے آپ فنِ کتابت و طباعت سے وابستہ ہیں۔ یہ سننے میں محض ایک معمولی سی بات لگتی ہے ؛ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ انقلاباتِ دنیائے طباعت کا وہ زمانہ ہے جس کے ہر دوپانچ برسوں میں ایک نئی تکنیک کی آمد ہوتی رہی اور پرانی تکنیک کباڑ کی نذر کی جاتی رہی تھی۔ ان تیزترین تبدیلیوں کے ہم رفتار ممبئی کی دنیائے اردو صحافت نے جس اکلوتے شخص کو مستقل سفرانداز پایا وہ کوئی اور نہیں صرف محمد اسلم کرتپوری ہیں۔ آپ نے صحافت کے تمام شعبوں میں جدید مشینی تکنیک پر شائع ہونے والے انگریزی اخبارات کے مساوی دستی (Manual) فن پیش کرکے دادِ تحسین پائی۔ رنگین طباعت کے شروع ہوتے ہی ممبئی میں سب سے پہلا اردو چہاررنگی ماہنامہ ہیما (1973ء) دے کر اسلم صاحب نے صرف اخبار نہیں پیش کیا بلکہ یہاں کی اردو دنیا کو حوصلہ و نظر دیا۔ اس کے بعد 1986ء میں بھی رنگین ہفت روزہ اخبارالفتح کی رسمِ اجرا مشہور پنج ستارہ ہوٹل ’’تاج اِنٹرکانٹی نینٹل‘‘ میں کرواکے یہ پیغام دیا کہ اردو اخبارات کا اجرا بھی باوقار انداز میں کیا جا سکتا ہے اور سب نے دیکھا کہ ابتدا سے ہی ’الفتح‘ اردو دنیا میں ایک ہلچل کا سبب بنا رہا۔ رفتہ رفتہ اردو دنیا کے افق پر بھی کمپیوٹر کی روشنی پھیل گئی۔ اسلم صاحب کی خواہش کے مطابق ان کے شاگرد ڈاکٹر ریحان انصاری نے فیض صاحب کے عکسِ کتابت کو ڈیجیٹل روپ دیا جس کی نوک پلک کو اسلم صاحب نے پورے استقلال کے ساتھ درست کیا۔ اسے فونٹ کی صورت میں سید منظر حسن زیدی نے منتقل کیا اور اس فونٹ کو ’فیض نستعلیق‘ سے موسوم کرکے فیض صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اسلم صاحب خوش خلق ہیں، بردبار و متحمل طبع شخص ہیں، صلحِ کل اور باغ و بہار طبیعت کے مالک ہیں۔ آپ کسی کا بھی تعاون کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ اسی لیے ان کی بیٹھک کے احوال تو دیکھنے یا سننے سے زیادہ تجربہ لینے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں ادیب و شاعر، صحافی و فنکار، سیاست داں، علمی و فلمی ہستیاں اور تمام ہی شعبۂ حیات سے متعلق افراد کی آمدورفت رہا کرتی ہے۔ یہ دروازہ ہر کسی کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ یہ مقبولیت و التفات کی علامت ہے۔