افتخار جالب
[[تصویر:Iftikar jalib.jpg|framepx|thumb|left|افتخار جالب:وفات :12 مارچ 2003 لاہور
پس دیوار پھول کھلتا ہے
جو ہو سکے تو دل کی دھڑکنوں میں ڈبو دو
یہ نامرادی کی خانہ خراب سی خوشبو ـ امڈی آتی ہے ، روکو
(نظم „ہولناک بشارت„)
ساٹھ کی دہائی میں نئی شاعری (نظم)اور اردو زبان میں لسانی تشکیلات کی تحریک کے بانی شاعر اور نقاد۔ افتخار جالب گورنمنٹ کالج لاہور کے رسالے راوی کے مدیر بھی رہے۔وہ ایک ٹریڈ یونین کے سرگرم رکن بھی رہے ـ ستر کی دہائی کے آخر میں بنکوں میں ہڑتال کرانے پر انھیں کچھ عرصہ کے لیے ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور بعد میں عدالت کے حکم سے نوکری پر بحال ہوئے ـ
جالب نے ’نئی نظم‘ کے عُنوان سے مضامین کا ایک مجموعہ شائع کیا جس میں ان کے علاوہ صفدر میر ، اختر احسن، گوہر نوشاہی، عزیز الدین احمد، عبد الحق کھامی، ڈاکٹر سید عبد اللہ، تبسم کاشمیری،الطاف قریشی،ظہیر کاشمیری ، جیلانی کامران اور انیسں ناگی کے مضامین شامل تھے ـ نئی شاعری کی تحریک سے متعلق شاعر اور نقاد ڈاکٹر سعادت سعید کا خیال ہے: ْافتخار جالب کی نظمیں نئے عہد کے انسانی مسائل کی پیچیدگیوں کو بڑے موثر طریقے سے بے نقاب کرتی ہیں۔ حال کے لمحوں کی اذیت، کرب اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے فرد کی انتشاری شخصیت کے کوائف ان کے ہاں عمومی ہیں۔ افتخار جالب کے لیے ماضی اور ماضی سے متعلق تمام روایات اپنا مفہوم کھو بیٹھتی ہیں۔ وہ اپنی تہذیب اور اپنی معاشرت ، اپنے اخلاقی تصورات اور اپنے فکری مفروضوں کو حال کے لمحوں کی تبدیل شدہ صورت حال سے اخذ کرتے ہیں۔ ٗٗٗٗٗ افتخار جالب کی بنائی ہوئی منفرد زبان صحافت کی بیانیہ زبان اور روایتی کلاسیکی اور رومانوی زبانوں سے مختلف ہے ـ نقاد قاضی جاوید کا کہنا ہے کہ جالب نے ادب کی لسانی بنیادوں کو اہمیت دی اور یہ تصور پیش کیا کہ ادب اور شاعری زبان سازی کے عمل سے وجود میں آتی ہے ـ
افتخار جالب کی نظمیں پُرسکون جذبات کی نظمیں نہیں ہیں بلکہ خیالوں ، حقیقتوں اور خوابوں کے کار زار کی عکاس ہیں جن میں پیچیدہ استعاروں کے ذریعے ایک بحرانی صورت حال کو بیان کیا گیا ہے ـ
درون آدم کی راستی احتجاج کرتی ہے
ہمیں نہیں چاہیے ، خدارا ، ہمیں نہیں چاہیے
ہمیں مکمل سکوت دے دو
ہمیں جہنم کی سختیوں سے رہائی بخشو
( نظم ’وقتا عذاب النار‘)
جالب کی شاعری کی پہلی کتاب ’مآخذ‘ ان کی شہرت کی وجہ بنی ـ اس میں ان کی طویل نظم ’قدیم بنجر‘ شامل ہے جو عصری ماحول میں فرد اور معاشرے سے بحران کی تفتیش کرتی ہے ـ یہ نظم روایتی شاعری کے انداز سے ہٹ کر مصرعوں کی تشکیل کے ایک نئے انداز میں انسان کے وجود کا اظہار کرتی ہے ـ
ان کی نظموں کے موضوعات متنوع ہیں جن میں سڑکوں پر ہجوم کے مسائل ، اپنے میں محو فکر فرد ،فرد کی بیگانگی ، گھریلو معاملات ، تجارتی مراکز میں ہونے والے جرائم اور سیاسی معاملات شامل ہیں ـ ان کے نزدیک انفرادی آزادی ہو یا کشمیر اور فلسطین کے عوام کے مسائل یہ سب علاحدہ علاحدہ خانوں میں بٹے ہوئے مسائل نہیں ، ایک کُل کا حصہ ہیں ـ
گھبرائیو نہیں ، قہر اٹھا ہے تو خوشیوں کو بھی بانٹیں گے ، ذرا ہاتھ کُھلے رکھنا ، حقیقت بھرے خوابوں کی خبر آئے گی ، یلغار کی صورت (نظم ’کشمیر کے حوالے سے‘)
مآخذ کے بعد افتخار جالب کی شاعری میں تبدیلی آئی اور انھوں نے سیدھے سادے اسلوب میں منظم جذبات کی شاعری بھی کی اور شاعرانہ تخیل کے جمالیاتی اختصار سے بھی کام لیا ـ نقاد آزاد کوثری کا کہنا ہے ستر کی دہائی میں افتخار جالب مشہور عوامی شاعر حبیب جالب کے انقلابی نظریہ سے متاثر ہوئے اور اس کی پیروی کرنے لگے تھے ـ
زبان خشک ہوئی ، نطق گلوگیر ہے
پابند ہے ، آواز
پابجولاں ہے ، شعاعوں میں بندھے سائے
سلاخوں سے گزرتے ہیں
(نظم ’معنی کا خمیازہ تشدد کا صلہ ، واللہ‘)
افتخار جالب کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ شاعروں کی ایک پوری نسل ان سے متاثر تھی ـ جیلانی کامران، تبسم کاشمیری، ظفر اقبال، انیس ناگی، سعادت سعید اور کئی دوسرے شاعر اس قبیلہ میں شامل ہیں ـ لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔