افغانستان سے سوویت انخلاء
افغانستان سے سوویت افواج کا مکمل انخلاء 15 مئی 1988ء کو شروع ہوا جو 15 فروری 1989ء کو کرنل جنرل بورس گروموف کی قیادت میں ختم ہوا۔
میخائل گورباچوف کے کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے بعد افغانستان جنگ کے بعد سوویت یونین افواج کی واپسی کے لیے منصوبہ بندی جلد ہی شروع کی گئی۔ سویت یونین نے سب سے پہلے ملک میں پیپلز ڈٰیموکریٹک پارٹی کا اقتدار مستحکم کرنے کی حقیقی کوشش کی غرض سے افواج کی واپسی اور اپنا اپنا تاثر چھوڑنے کے لیے فوری طور پر انخلاء پر عمل درآمد یقینی بنایا گیا۔ اس عرصہ کے دوران سویت یونین کی کے فوجی اور انٹیلی جنس تنظیموں نے نجیب اللہ کی حکومت کے ساتھ کام کیا کہ وہ کابل میں حکومت اور باغی گروہوں کے رہنماؤں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنائیں۔.
سویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات اسی وقت بہتر ہوئے اور سوویت یونین کے لیے یہ واضح ہو گیا کہ کابل میں نجیب اللہ کی حکومت کے ذریعے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اقتدار کو استحکام بخشا نہیں جا سکتا۔ 14 اپریل کو اسلامی جمہوریہ پاکستان، امریکا اور جمہوری افغانستان کے مابین جنیوا معاہدہ طے پایا۔ جس میں افغانستان سے سویت یونین کے انخلاء کے بعد موجود خلا کو پر کرنے کے لیے عالمی تعاون اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے منصوبہ بندی کی گئی۔ اس معاہدے کے بعد سویت افواج نے افغانستان سے 15 فروری 1989ء کو انخلاء مکمل کیا[1]۔
نتائج
ترمیمنجیب اللہ حکومت کے لیے سوویت کی حمایت، سویت افواج کی واپسی کے ساتھ ختم نہیں ہوئی۔ سویت یونین نے فوجی امداد جاری رکھی، اس امداد کی وجہ سے سی ائی اے اور امریکی ریاستی محکمے کے اندازوں کی بجائے نجیب اللہ حکومت زیادہ دیر تک اقتدار میں رہی[2]۔ مجاہدین نے چند شہروں پر قبضہ کیا لیکن وہ نجیب اللہ کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں ناکام رہے۔ اگست 1991ء میں سویت یونین کے انہدام کے بعد بورس یلسن کے زیر قیادت روشین فیڈریشن قائم ہوئی جس نے فوری طور پر افغانستان کی امداد بند کر دی[2]۔ بعد میں پارٹی کی اندرونی لڑائی کی وجہ سے نجیب اللہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ حکمت یار اور معسود قبائل کے مابین لڑائی نے طالبان کی راہ ہموار کی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "The anniversary of the withdrawal of the Red Army from Afghanistan"۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ^ ا ب Ewans، Martin (2005). Conflict in Afghanistan: Studies in Asymetric Warfare (1). New York: Routledge. ISBN:9780415341608.