افغانستان میں خانہ جنگی (1989ء–1992ء)

افغانستان میں خانہ جنگی  ،  25 فروری 1989ء تا 27 اپریل 1992ء   تک افغانستان سے سویت یونین کی افواج کے انخلاء سے لے کر پشاور معاہدے تک جاری رہی ۔ پشاور معاہدے کے مطابق  28 اپریل 1992ء کو  نئی عارضی حکومت بننا طے پائی تھی۔

1989 تا 1992 ء  کے عرصے میں مجاہدین گروپ جن میں بعض  افغانستان مجاہدین کے اسلامی اتحاد  میں متحد تھے، انھوں  نے برملا اظہار کیا کہ وہ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت جمہوری جمہوریہ افغانستان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں[1]۔مارچ 1989ء میں پاکستانی بین الخدماتی مخابرات  (آئی ایس آئی) کے تعاون سے مجاہدین کے گروہوں حزب اسلامی اور اسلامی اتحاد نے جلال آباد پر حملہ کیا لیکن جون تک یہ شکست خورد رہے۔

مارچ 1 99 1 ء میں مجاہدین کے اتحاد نے افغان شہر خو ست پر قبضہ کر لیا ، مارچ 1992ء میں سویت حمایت کی آخری باقیات کو کھو دینے کے بعد صدر محمد نجیب اللہ نے ہتھیار ڈالنے پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے مجاہدین کی اتحادی حکومت کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ تاہم آئی ایس آئی کے حمایت یافتہ مجاہدین گروہ حزب اسلامی نے اتحادی حکومت پر تبادلہ خیال کرنے اور اس معاہدے پر رضامندی سے انکار کرتے ہوئے کابل پر حملہ کر دیا۔اس وجہ سے مجاہدین کے مختلف گروہوں کے مابین 25 اپریل 1992  ء کو بدترین خانہ جنگی کا آغا ز ہو گیا۔

پس منظر

ترمیم
1989ء میں سویت یونین کے انخلاکے بعد افغانستان

اکتوبر 1978ء میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان نے ثور انقلاب برپا کرنے کے بعد سوشلسٹ اصلاحات متعارف کروانا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں ملک میں شہری اور شادی کے قوانین کو جدید بنانے کاعمل شروع کر دیا گیا۔ ان منصوبوں کے مخالفین  جو اپنے آپ کو مجاہدین کہلواتے تھے ،نے بغاوت کا آغاز کر دیا۔ سوویت اتحاد 1919ء سے  ہی افغانستان کی معاشی اور عسکری حمایت جاری رکھے تھا اس نے 1979ء کے ابتدا میں  نور محمد ترہ کئی کی درخواست پر اپنے سینکڑوں فوجی اور شہری مشیروں کو    افغانستان میں بھیجا۔دسمبر 1979 ء میں سویت یونین نے باقاعدہ طور پر ملک میں فوج کشی شروع کر دی اور موجودہ صدر حفیظ اللہ امین کو ہلاک کر کے سوویت وفادار ببرک کارمل کو اقتدار سونپ دیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور تنظیم تعاون اسلامی کے سویت یونین سے افواج کی ملک سے واپسی کے مطالبے کے باوجود روس 1989ءتک افغانستان میں رہا۔اس دوران بڑے شہروں اور اہم تنصیبات پر حملے کیے گئے اور مجاہدین باغیو ں کے خاتمے کے لیے کئی گاؤں اور آبپاشی کا نظام تک تباہ کیا گیا۔  ان نو سالوں میں 20 لاکھ سے زائد افغان افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے جن میں بڑی تعداد نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لی۔1985ء میں سویت یونین کے رہنما میخیل گورباچوف نے اقتدار سنبھالا انھوں نے چین کے دباؤ میں اعلان کیا کہ وہ 1987ء تک سویت یونین کی افواج کا ملک سے انخلا ء یقینی بنائیں گے تاہم حقیقت میں  مئی 1988 ء اور فروری 1989 کے درمیان واپسی کا آغاز ہوا۔1989 ء میں سویت یونین کے افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی تقسیم شدہ مجاہدین نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی حکومت کے صدر نجیب اللہ  کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی۔ مجاہدین کے مطابق نجیب اللہ کی حکومت کو ابھی تک سویت یونین کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ ایک کٹھ پتلی حکومت ہے[2]۔لہذا اس کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہیے[1]۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب 'Mujahidin vs. Communists: Revisiting the battles of Jalalabad and Khost آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ prio.org (Error: unknown archive URL). By Anne Stenersen: a Paper presented at the conference COIN in Afghanistan: From Mughals to the Americans, Peace Research Institute Oslo (PRIO), 12–13 February 2012. Retrieved 1 February 2018.
  2. Marshall, A.(2006); Phased Withdrawal, Conflict Resolution and State Reconstruction; Conflict research Studies Centre; آئی ایس بی این 1-905058-74-8 "Archived copy" (PDF)۔ 01 دسمبر 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2008