شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے نفس افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتی و ہ ہنر کیا

نظریہ فن کے بارے میں اقبال اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اوّل یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس پیدا کرناہے اور دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کوفائدہ پہنچنا چاہیے۔ اقبال کا ذاتی خیال ہے کہ ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے فائدہ مند ہے وہ اچھا اور جائز ہے۔ اور جو زندگی کے خلاف ہو وہ ناجائز ہے۔ اور جو انسانوں کی ہمت کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہو قابل ِ نفرت ہے۔ اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔ آرٹ کے مضر اثرات کے متعلق فرمایا ہے کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کے لیے مردہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ہندو قوم کی تباہی میں ان کے فن ِ موسیقی کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔

گویا اقبال فن کو زندگی کا معاون سمجھتے ہیں اور اس کو افادیت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اقبال ایسے فن کے شدید مخالف ہیں جس سے قوم پر مردنی چھا جائے اور جو اس کے قوائے عمل کو مضمحل کر دے۔ اس لحاظ سے اقبال کے نظریہ فن میں افادیت اور مقصدیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اقبال افادیت کے اس حد تک قائل ہیں کہ ان کے خیال میں مردنی پیدا کرنے والے فن کی حکومت کی طرف سے جبراً روک تھام ہونی چاہیے۔

فن اور زندگی ترمیم

اقبال کے نزدیک فن کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کی نشو و نما میں معاونت کرے جس فن میں نہ زندگی کی کار فرمائی نظر آئے اور نہ فن کار کی خودی وہ اقبال کے نزدیک بیکار ہے۔

اقبال سارے فنون لطیفہ کو زندگی اور خودی کے تابع قرار دیتا ہے۔ زندگی سے اقبال کی مراد قوم کی اجتماعی زندگی ہے اقبال نے اپنی ایک نظم میں قوم کو ایک جسم قرار دیتے ہوئے افرا د کو اس کے مختلف اعضاءسے تشبیہ دی ہے۔ ان اعضاءمیں شاعر کی حیثیت قوم کے دیدہ بینا کی ہے۔ مثلاً

قوم گویا جسم ہے افراد ہے اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نو ہے دیدہ بینائے قوم

اقبال کہتے ہیں جب تک شاعری میں سوز دروں کی کارفرمائی نہیں ہوگی، قوم سوز آرزو اور سوزِ حیات سے بیگانہ رہے گی۔ اگر قوم لذت آرزو سے محروم رہے گی تو اس کی شیرازہ بندی ممکن نہیں ہوگی مثلاً،

شمع محفل ہوکے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بے گانے رہے
رشتہ الفت میں جب ان کو پروسکتاتھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے

فن اور صداقت ترمیم

اقبال کے خیال میں آرٹ کی بنیاد سوز و گداز، صداقت اور انقلاب انگیز قوت پر ہونی چاہیے۔ لیکن اگر حیات ِ اجتماعی کسی خاص زمانے میں کسی خاص انحطاطی اثر کا شکار ہو تو آرٹ کو اس سے متاثر نہ ہو نا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں کہ صداقت نقل اور تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ شاعر کا کام ہے کہ کائنات اور حیات کے بحر زخار سے خود نئے موتی چنے اور زندگی کے سمندر سے صداقت کا جام پئے۔ مثلاً

شاعرِ دلنواز بھی بات اگر کہے کھری سی
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آذری
کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش

فن اور آزادی ترمیم

اقبال کہتے ہیں کہ فن کے حقیقی فروغ کے لیے آزادی بے حد ضروری ہے کیوں کہ عمرانی اور معاشی آزادی کے بغیر فن کی صحیح نشو و نما ہو ہی نہیں سکتی۔ جمال کی قدر جس کو اقبال نے اپنے نظریہ فن میں حرکت سے وابستہ کر دیا ہے صرف آزادی ہی کے عالم میں پیدا ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ اقبال کے نزدیک جمال، جلال کی ابتدائی کیفیت ہے۔ غلامی میں ذوق حسن باقی نہیں رہتا۔ بصیرت جو حسن و جمال کے مشاہدے کے لیے اس قدر ضروری ہے فنا ہو جاتی ہے۔ اور دوسروں کی اقدارِ حسن کی اندھی تقلید باقی رہتی ہے اور اس اندھی تقلید سے جو آرٹ پیدا ہوتاہے وہ بھی جھوٹا اور بے اصل ہی ہوتا ہے۔ مثلاً

غلامی کے ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بند ے ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مردان ِ ہنر مند کہ نخچیر

فن اور خودی ترمیم

اقبال کے فن کا نظریہ ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔ ان کے نزدیک آرٹ اظہار خودی کا ایک وسیلہ ہے۔ وہ فن جس میں خودی باقی نہیں رہتی۔ اقبال کے خیال میں مضر چیز ہے۔ خودی دراصل اقبال کے نظام فکر کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس لیے انھوں نے تمام فنون لطیفہ کو خودی کے تابع قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ فن اجتماعی زندگی کی نشو و نما بھی کرتا ہے۔

خودی کا باقاعدہ تصور پیش کرنے سے پہلے اقبال نے شاعر کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے اور خودی کے ذریعے راز حیات معلوم کرنے کے ذرائع ڈھونڈنے کی تعلیم دی تھی۔ یہ شاعر یا فنکار کے لیے داخلیت یا وطن پرستی کا درس اپنی خودی کو دریافت کرنا اور اسے جگانا، احتساب کائنات کے لیے شمع روشن کرنا ہے۔ مثلاً،

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقان ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ کس کی جستجو اوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایا ں بھی ہے
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و نائے و سرور

فن اور عشق ترمیم

	اقبال کے فلسفے میں عشق کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک فن کا محرک جذبہ عشق ہے۔ ان کے خیال میں کوئی فن خلوص، سوز و گداز اور خون جگر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ فنکا ر کی ایک بڑی خصوصیت اس کا خلوص ہے جو عقلی بھی ہو سکتا ہے اور جذباتی بھی۔ اقبال کے ہاں جذباتی رنگ زیادہ غالب ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ وہ تمام معجز ہائے ہنر فانی ہیں جن کی تہ میں خلوص و جذبہ موجود نہ اوروہ تمام فن پارے ابدی اہمیت کے حامل جن کی نمود خونِ جگر، خلوص اور سوز دل کی مرہون ِ منت ہو مثلاً

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

برگ گل رنگیں ز مضمون من است
مصرع من، قطرہ خونِ من است

فن اور جلا ل و جمال ترمیم

اقبال ہر فن پارے میں دلبری کے ساتھ ساتھ قاہر ی کی صفت بھی دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ وہ فن میں جلا ل و جمال کے امتزاج کے قائل ہیں۔ کیونکہ وہ قوت اور جلال ہی میں زندگی کی نمو کا راز پوشیدہ دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خالص قوت جس میں جمال کی آمیزش نہ ہو تباہی و بربادی لے کر آتی ہے۔ اور خالص جما ل جو قوت سے محروم ہو ان کے خیال میں پست درجے کے فن کی تخلیق کرتا ہے۔

اقبا ل کے خیال میں اگر کسی فن پارے میں دلبری و قاہری کا امتزاج نہ ہو تو فن پارہ نا مکمل ہے۔ اور اگر اس میں جلال اور جمال کی صفات جلوہ گر ہوں تو وہ ابدیت سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ دلبری سے قاہری کو جادوگری اور دلبری با قاہری کو پیغمبری قرار دیتے ہیں مثلاً۔

دلبری بے قاہری جادو گریست
دلبری با قاہری پیغمبر یست

مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جما ل بے تاثیر
مرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک

فن صبح کا پیغامبر ترمیم

اقبال کے نزدیک فن کا مقصد معاشرتی ترقی ہے۔ وہ فن کے متعلق اپنے نقطۂ نظر اور معاشرے سے اس کے تعلق کو شاعری کے ذریعے مثالوں سے واضح کرتے ہیں ان کے نزدیک شاعری دیدہ بینا ئے قوم ہے۔ فن کا صحیح مقصد زندگی، انسان اور اس کی معاشرت کو تقویت دینا ہے۔ ایک فنکار کو صبح کا پیغامبر ہونا چاہیے اور اگر وہ افسردہ اور یاس انگیز نغموں کے سوا کچھ نہ الاپ سکے تو اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ خاموش رہے مثلاً

افسرد ہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے نفس افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

معاشرے میں جذبات پیدا کرنا ترمیم

اقبال کا کہنا ہے کہ شاعر سینہ ملت میں دل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے اپنی پیغمبرانہ قوتوں سے ملت خوابیدہ کو بیدار کردینا چاہیے۔ اور انھیں بلند سے بلند تر منازل تک لے جانا چاہیے۔ اقبال مزید کہتے ہیں کہ وہ شاعری یا وہ شعر جو معاشرے میں جذبات کا ایک طوفان پیدا نہ کر دے کسی کام کا نہیں مثلاً

جس سے دل درے ا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نہاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا؟

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں 

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتی وہ ہنر کیا؟

اقبال کہتے ہیں کہ فن زندگی کے حصول کا ایک گراں قدر ذریعہ ہے اور اگر اس میں یہ خصوصیت ہوتو وہ پیغمبر ی سے صرف ایک درجہ کمتر ہے۔ فن کا ر کو لازم ہے کہ وہ کم حوصلہ لوگوں میں مردانگی اور جرات کی روح پھونک دے مثلاً

نوا پیرا ہو ایک بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

حیات ابدی کے حصول کی لگن ترمیم

اقبال فرماتے ہیں کہ فن کا کام یہ ہے کہ وہ ایسی شاعری تخلیق کرے جس شاعر ی سے تمام بنی نوع انسان حیات ابدی کی طرف راغب ہو جائے اور ابدی زندگی کے حصول کے لیے کوشش شروع کر دے۔ اقبال فرماتے ہیں وہ شعر جو حیات ابدی کا پیغام لیے ہوئے ہو نغمہ جبریل کی طرح مشیت ایزدی کی تلقین کرتا ہے اور شعر کہنے والے کی آواز حشر کا سامان ہوتی ہے۔ مثلاً۔۔۔۔۔

وہ شعر کہ پیغام حیاتِ ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ اسرفیل

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ یک نفس یا دو نفسِ مثلِ شرر کیا

فطرت کی خامیوں کو دور کرنا ترمیم

فن کے بارے میں بعض فطرت پرستوں کا نظریہ یہ ہے کہ حقیقی فن یہ ہے کہ فطرت جس طرح نظر آتی ہے فنکار اسے بالکل اسی طرح پیش کرے۔ گویا فن کا راپنی ظاہر کی آنکھ سے جو کچھ دیکھتا ہے اگر اس کی ہو بہو تصویر کھینچ دے تو یہ بڑا فن ہے ورنہ نہیں۔

اقبال نے نقالی کے اس نظریے کی بھی شدید مخالفت کی۔ اقبال کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ فطرت کی نقالی کوئی کمال نہیں اصل کمال تو یہ ہے کہ جو فطرت نہیں کرسکتی اسے انسان کرے۔ انسان فطرت کے مقابلے میں بہتر، بلند اور باشعور ہے وہ فطرت کا غلام نہیں فطرت اس کی غلام ہے۔ فن کار کا کام یہ ہے وہ فطرت کی خامیوں کو دور کرکے اسے حسین بنا کر پیش کرے مثلاً

فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام ِ رنگ بو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر

یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شائد
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

بقول ایم ایم شریف

” اقبال کے نزدیک اس فن کا کوئی مطلب نہیں جس کا تعلق زندگی، انسان اور معاشرت سے نہ ہو فن کا اوّلین مطلوب خود زندگی ہے۔ فن کے لیے لازم ہے کہ وہ ذہن انسانی میں ایک ابد ی زندگی کے حصول کی لگن پیدا کر دے۔ “