الشعریٰ
الشعریٰ ایک روشن ستارہ ہے جو جوزاء کے ساتھ سخت گرمی کے زمانہ میں طلو ع ہوتا ہے جس کی بعض قبائل عرب پرستش کرتے تھے۔
قرآن میں ذکر
ترمیماس کا ذکر قرآن میں ایک مرتبہ آیا ہے
- وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَى
- اور یہ کہ وہی رب ہے شعریٰ (ستارہ) کا
شعریٰ ایک ستارے کا نام ہے جو جوزاؔ کے پیچھے واقع ہوا ہے۔
شعریٰ نامی دو ستارے
ترمیمشعریٰ دو ستارے ہیں ‘ ایک کو عبور کہتے ہیں اور دوسرے کو قمیص۔ پہلا ” شعریٰ یمانیہ “ سے موسوم ہے اور دوسرا ستارہ ” الشعری الغمیصاء “ سے ہے جس کے معنی ” آنسوئوں کے جاری ہونے کے ہیں [1] قرآن میں عبور مراد ہے۔
شعریٰ کے پجاری
ترمیمبنی خزاعہ عبور کی پوجا کرتے تھے۔ کوئی شخص تھا کبشہ ‘ یہ بنی خزاعہ کا ایک سردار تھا۔ اسی نے اس رسم بد کی ایجاد کی اور قریش کے بت پرستی کے رواج کی مخالفت کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی عرب اسی مناسبت سے ابن ابی کبشہ کہتے تھے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی عرب کی بت پرستی کی مخالفت کی تھی۔ شعریٰ کے رب ہونے کا خصوصی ذکر اس وجہ سے کیا کہ وہ لوگ شعریٰ کو پوجتے تھے۔ اللہ نے رب الشعریٰ فرما کر یہ بات ظاہر کردی کہ شعریٰ تو اللہ کی ایک مخلوق ہے وہ قابل عبادت نہیں ہے جیسا لاۃ و عزّٰی ویسا ہی شعریٰ ہے۔[2]
علما ہیئت کی تحقیق میں یہ آسمان کا روشن ترین ستارہ ہے۔ اس کی پرستش نہ صرف عربوں میں بلکہ متعدد قدیم مشرک، جاہلی قوموں، مصریوں، یونانیوں، رومیوں وغیرہ میں کثرت وشدت سے ہوتی رہی ہے، قرآن مجید نے اس کا نام اس سیاق میں لاکر سارے نظام ستارہ پرستی پر ضرب لگادی۔ مغربی محققین کا بیان ہے کہ الحجر کے نباطی عہد کے کتبوں میں اس دیوی کا نام منات دیوی کے نام کے ساتھ ساتھ ملتا ہے۔[3]
شعری ستارے کے انگریزی میں کئی نام ہیں۔ اسے CANIS MAJORIS اور DOG STAR, SIRIUS بھی کہا جاتا ہے انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں SIRIUS کے عنوان کے ضمن میں جو معلومات ہیں
- یہ ستارہ مجموعہ نجوم میں روشن ترین ستارہ ہے۔ سورج سے بھی اس کی روشنی اکیس گنا زیادہ ہے اور حجم میں بھی یہ سورج سے بڑا ہے۔ اس کی سطح کا درجۂ حرارت بھی کافی زیادہ ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ اعشاریہ چھ .8.6 نوری سال ہے۔ قدیم مصری اس کو بہت مقدس مانتے تھے، کیونکہ یہ جس موسم میں طلوع ہوتا اس وقت دریائے نیل میں سیلاب کی آمد آمد ہوتی۔ تمام علاقہ سیراب ہو کر سر سبز و شاداب ہوجاتا۔ مصریوں کا عرصہ دراز تک یہی عقیدہ رہا کہ شعری ستارہ کے طلوع کے باعث مصر میں خوش حالی کا دور دورہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اسے ہر قسم کی سر سبزیوں اور شادابیوں کا خالق یقین کرتے تھے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔[4]