سورہ الضحیٰ
قرآن مجید کی 93 ویں سورت جس میں 11 آیات ہیں۔
الضحیٰ | |
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 93 |
تعداد آیات | 11 |
الفاظ | 40 |
حروف | 164 |
گذشتہ | اللیل |
آئندہ | الم نشرح |
نام
پہلے ہی لفظ والضحٰی کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
اس کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا تھا جس سے حضور سخت پریشان ہو گئے تھے اور بار بار آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو رہا تھا کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں ہو گیا جس کی وجہ سے میرا رب مجھ سے ناراض ہو گیا ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ وحی کے نزول کا سلسلہ کسی ناراضی کی بنا پر نہیں روکا گیا تھا، بلکہ اس میں وہی مصلحت کارفرما تھی جو روزِ روشن کے بعد رات کا سکون طاری کرنے میں کارفرما ہے۔ یعنی وحی کی تیز روشنی اگر آپ پر برابر پڑتی رہتی تو آپ کے اعصاب اسے برداشت نہ کر سکتے۔ اس لیے بیچ میں وقفہ دیا گیا تاکہ آپ کو سکون مل جائے۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نبوت کے ابتدائی دور میں گزرتی تھی جبکہ ابھی آپ کو وحی کے نزول کی شدت برداشت کرنے کی عادت نہیں پڑی تھی، اس بنا پر بیچ بیچ میں وقفہ دینا ضروری ہوتا تھا۔ (نزول وحی کا کس قدر شدید بار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعصاب پر پڑتا تھا اس کے لیے دیکھیے مضمون سورۂ مدثر اور مطالعہ کیجیے سورۂ مزمل) بعد میں جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اندر اس بار کو برداشت کرنے کا تحمل پیدا ہو گیا تو طویل وقفے دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
موضوع اور مضمون
اس کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تسلی دینا ہے اور مقصد اُس پریشانی کو دور کرنا ہے جو نزولِ وحی کا سلسلہ رک جانے سے آپ کو لاحق ہو گئی تھی۔ سب سے پہلے روزِ روشن اور سکونِ شب کی قسم کھا کر آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو ہر گز نہیں چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ کو خوشخبری دی گئی ہے کہ دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور میں جن شدید مشکلات سے آپ کو سابقہ پیش آ رہا ہے یہ تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ آپ کے لیے ہر بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہوتا چلا جائے گا اور کچھ زیادہ دیر نہ گذرے گی کہ اللہ تعالٰی آپ پر اپنی عطا و بخشش کی ایسی بارش کرے گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے۔ یہ قرآن کی ان صریح پیشین گوئیوں میں سے ایک ہے جو بعد میں حرف بحرف پوری ہوئیں، حالانکہ جس وقت یہ پیشین گوئی کی گئی تھی اس وقت کہیں دور دور بھی اس کے آثار نظر نہ آتے تھے کہ مکہ میں جو بے یار و مددگار انسان پوری قوم کی جاہلیت کے مقابلے میں بر سر پیکار ہو گیا ہے اسے اتنی حیرت انگیز کامیابی نصیب ہوگی۔
اس کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا ہے کہ تمھیں یہ پریشانی کیسے لاحق ہو گئی کہ ہم نے تمھیں چھوڑ دیا ہے اور ہم تم سے ناراض ہو گئے ہیں۔ ہم تو تمھارے روز پیدائش سے مسلسل تم پر مہربانیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تم یتیم پیدا ہوئے تھے، ہم نے تمھاری پرورش اور خبر گیری کا بہترین انتظام کر دیا۔ تم ناواقفِ راہ تھے، ہم نے تمھیں راستہ بتایا۔ تم نادار تھے، ہم نے تمھیں مالدار بنایا۔ یہ ساری باتیں صاف بتا رہی ہیں کہ تم ابتدا سے ہمارے منظور نظر ہو اور ہمارا فضل و کرم مستقل طور پر تمھارے شامل حال ہے۔ اس مقام پر سورۂ طٰہٰ آیات 37 تا 42 کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے مقابلہ میں بھیجتے وقت اللہ تعالٰی نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لیے انھیں بتایا ہے کہ کس طرح تمھاری پیدائش کے وقت سے ہماری مہربانیاں تمھارے شامل حال رہی ہیں، اس لیے تم اطمینان رکھو کہ اس خوفناک مہم میں تم اکیلے نہ ہو گے بلکہ ہمارا فضل تمھارے ساتھ ہوگا۔
آخر میں اللہ تعالٰی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتایا ہے کہ جو احسانات ہم نے تم پر کیے ہیں ان کے جواب میں خلق خدا کے ساتھ تمھارا برتاؤ کیا ہونا چاہیے اور ہماری نعمتوں کا شکر تمھیں کس طرح ادا کرنا چاہیے۔
یعنی آخرت دنیا سے بہتر کیونکہ وہاں آپ کے لیے مقامِ محمود و حوضِ مورود و خیرِ موعود اور تمام انبیا و رُسل پر تقدم اور آپ کی امّت کا تمام امّتوں پر گواہ ہونا اور آپ کی شفاعت سے مومنین کے مرتبے اور درجے بلند ہونا اور بے انتہا عزّتیں اور کرامتیں ہیں جو بیان میں نہیں آتیں۔ اور مفسّرین نے اس کے یہ معنٰی بھی بیان فرمائے ہیں کہ آنے والے احوال آپ کے لیے گذشتہ سے بہتر و برتر ہیں گویا حق تعالٰی کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزّت پر عزّت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اور ساعت بساعت آپ کے مراتب ترقیوں میں رہیں گے ۔
مزید دیکھیے
- ظہر (دوپہر کی نماز)
حوالہ جات
بیرونی روابط
ویکی ماخذ میں سورہ الضحیٰ سے متعلق وسیط موجود ہے۔ |