مکہ

سعودی عرب کا ایک شہر اور ضلع مکہ کا دارالحکومت

مکہ یا مکہ مکرمہ (عربی: مَكَّةُ الْمُكَرّمَةْ‎) تاریخی خطہ حجاز میں سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دار الحکومت [6]اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ء کے مطابق 12 لاکھ 94 ہزار 167 ہے۔ مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور وادی فاران میں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[7]

مکہ
(عربی میں: مكة المكرمة)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1448) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

انتظامی تقسیم
ملک سعودی عرب (23 ستمبر 1932–)[2]
مملکت نجد و حجاز (1925–22 ستمبر 1932)
مملکت حجاز (1916–1925)
سلطنت عثمانیہ (1517–1916)
خلافت راشدہ (632–661)
سلطنت امویہ (661–750)
دولت عباسیہ (750–1261)
سلطنت عثمانیہ (1519–1916)
مملکت نجد و حجاز (1925–1932)
سلطنت مملوک (1261–1519)  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[3][4]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ المکہ علاقہ   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 21°25′21″N 39°49′34″E / 21.4225°N 39.826111111111°E / 21.4225; 39.826111111111   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رقبہ 760 مربع کلومیٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2046) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی 277 میٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2044) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
کل آبادی 2427924 (مردم شماری ) (2022)[5]  ویکی ڈیٹا پر (P1082) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزید معلومات
جڑواں شہر
اوقات متناسق عالمی وقت+03:00   ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فون کوڈ ویکی ڈیٹا پر (P473) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جیو رمز 104515  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نقشہ
فائل:Mecca location.jpg
مکہ مکرمہ

یہ شہر اسلام کا مقدس ترین شہر ہے کیونکہ روئے زمین پر مقدس ترین مقام بیت اللہ یہیں موجود ہے اور تمام باحیثیت مسلمانوں پر زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ یہاں کا حج کرنا فرض ہے ۔.[8][9]

انگریزی زبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی میں حکومت سعودی عرب نے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل کر Makkah کر دیا۔[10]

معروف مؤرخ ابن خلدون کے مطابق مکہ پہلے بکہ کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم مؤرخین کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے: ابراہیم النخعی نے بکہ کو کعبہ اور مکہ کو شہر سے منسوب کیا جبکہ امام ُزہری بھی اسی کے حامی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بکہ میں استعمال ہونے والا ب دونوں آوازوں کے درمیان قربت کے باعث بعد ازاں م میں تبدیل ہو گیا۔ مکہ کو ”ام القری“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔.[11]

تاریخ

ترمیم

مسجد حرام کے اندر قائم خانۂ کعبہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیهم السلام نے تعمیر کیا۔ مؤرخین کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا مرکز تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ مکہ جنوبی عرب سے شمال میں رومی و بازنطینی سلطنتوں کے لیے زمینی راستے پر تھا اور ہندوستان کے مصالحہ جات بحیرہ عرب اور بحر ہند کے راستے سے یہیں سے گزرتے تھے۔[12][13]

کعبة الله کی تعمیری تاریخ عہد ابراہیم اور اسماعیل علیهم السلام سے تعلق رکھتی ہے اور اسی شہر میں نبی آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے اور اسی شہر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ یہی وہ شہر ہے جس سے اسلام کا نور پھیلا اور یہاں پ رہی مسجد حرام واقع ہے جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنائی گئی جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے :

”اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جولوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہ وہی ہے جومکہ مکرمہ میں ہے جوتمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے“ ( آل عمران:96 )

570ء یا 571ء میں یمن کا فرمانروا ابرہہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی (بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی) لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لیے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردار عبدالمطلب کی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنہیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی چنانچہ یہ سارا لشکر منیٰ کے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔

تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہو گیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے :

"کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کی سازش و مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے، جو انھیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے، پس انھیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا" ( سورة الفیل)

یہ وہی سال تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ یہیں گزارا۔ آپ پر وحی بھی اسی شہر میں نازل ہوئی اور تبلیغ اسلام کے نتیجے میں کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر مسلمان یہاں سے مدینہ ہجرت کر گئے۔

بالآخر 10 رمضان المبارک بمطابق 630ء میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئے۔ مدینہ ہجرت کر کے جانے کے بعد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی دوبارہ اس شہر مکّہ میں آمد کو فتح مکہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام اہلیان شہر کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔

خلافت اسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائے کرام اور دانشوروں کا مسکن بن گیا جو کعبة الله سے زیادہ سے زیادہ قریب رہنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں سفر حج کی مشکلات اور اخراجات کے باعث حجاج کرام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ 18 ویں اور 19 ویں صدی کے نقشہ جات اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا شہر تھا جس میں مسجد حرام کے گرد ایک شہر قائم تھا۔

مکہ کبھی ملت اسلامیہ کا دارالخلافہ نہیں رہا۔ اسلام کا پہلا دار الخلافہ مدینہ تھا جو مکہ سے 250 میل دوری پر واقع ہے۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی مدینہ ہی دار الخلافہ رہا اور پھر حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں پہلے کوفہ اور اس کے خاتمے کے بعد دمشق اور بعد ازاں بغداد منتقل ہو گیا۔

مکہ مکرمہ صدیوں تک ہاشمی شرفاء کی گورنری میں رہا جو اس حکمران کے تابع ہوتے تھے جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہلاتا تھا۔ سنہ 1926ء میں سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے مکہ کو سعودی عرب میں شامل کر لیا۔[14][15]جنوری، 2022 ء سے مکہ شہر کے مئیر صالح الترکی ہیں۔ [16]


جدید زمانے میں حاجیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث شہر تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور شہر کی اکثر قدیم عمارات ختم ہو چکی ہیں جن کی جگہ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالز، شاہراہیں اور سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔[17]

اہمیت

ترمیم
 
بیت اللہ و مسجد حرام

مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں سے ایک ہے۔ حالیہ سالوں میں ماہ ذوالحجہ میں 20 سے 30 لاکھ مسلمان ہر سال حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاکھوں مسلمان عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے بھی سال بھر مکہ آتے ہیں۔

شہر مکہ میں بنیادی حیثیت بیت اللہ کو حاصل ہے جو مسجد حرام میں واقع ہے۔ حج و عمرہ کرنے والے زائرین اس کے گرد طواف کرتے ہیں، حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں اور زمزم کے کنویں سے پانی پیتے ہیں۔ علاوہ ازیں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی اور منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل بھی کیا جاتا ہے۔ حج کے دوران میدان عرفات میں بھی قیام کیا جاتا ہے ۔

مسلمانوں کے لیے مکہ بے پناہ اہمیت کا حامل ہے اور دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ اسی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔

غیر مسلموں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور شہر کی جانب آنے والی شاہراہوں پر انتباہی بورڈ نصب ہیں۔ جن مقامات سے غیر مسلموں کو آگے جانے کی اجازت نہیں وہ حدود حرم کہلاتی ہیں۔

مسجد حرام کا پینورما، جسے مکہ کی عظیم الشان مسجد بھی کہا جاتا ہے، حج کے دوران

موسم

ترمیم

سعودی عرب کے دوسرے شہروں کے برعکس مکہ کا موسم سردیوں میں بھی نسبتاً گرم رہتا ہے۔ سردیوں میں رات کا درجہ حرارت 17 سینٹی گریڈ اور دوپہر کے وقت 25 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دوپہر کو درجہ حرارت عام طور پر 40 سینٹی گریڈ سے اوپر چلا جاتا ہے جبکہ رات کو بھی 30 درجے تک رہتا ہے۔ نومبر سے جنوری کے درمیان عموماً ہلکی بارشیں ہوتی ہیں۔

آب ہوا معلومات برائے مکہ
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
ماخذ: [18]

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. تعداد السكان والمساكن — اخذ شدہ بتاریخ: 12 جولا‎ئی 2020
  2. archINFORM location ID: https://www.archinform.net/ort/8365.htm — اخذ شدہ بتاریخ: 6 اگست 2018
  3.    "صفحہ مکہ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2024ء {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت) وline feed character في |accessdate= في مكان 15 (معاونت)
  4.     "صفحہ مکہ في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2024ء {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت) وline feed character في |accessdate= في مكان 15 (معاونت)
  5. تاریخ اشاعت: 2023 — Saudi Census 2022 — اخذ شدہ بتاریخ: 29 دسمبر 2023
  6. Merriam-Webster، Inc (2001)۔ Merriam-Webster's Geographical Dictionary۔ ص 724۔ ISBN:978-0-87779-546-9 {{حوالہ کتاب}}: |first1= باسم عام (معاونت)
  7. "Government statistics of Makkah in 2015" (PDF)۔ 17 نومبر 2018۔ مورخہ 2018-11-17 کو اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-06-27
  8. Ogle، Vanessa (2015)۔ The Global Transformation of Time: 1870–1950۔ Harvard University Press۔ ص 173۔ ISBN:9780674286146۔ Mecca, "the fountainhead and cradle of Islam," would be the center of Islamic timekeeping.
  9. Nicholson، Reynold A. (2013)۔ Literary History Of The Arabs۔ Routledge۔ ص 62۔ ISBN:9781136170164۔ Mecca was the cradle of Islam, and Islam, according to Muhammad, is the religion of Abraham.
  10. Khan, A M (2003)۔ Historical Value Of The Qur An And The Hadith۔ Global Vision Publishing Ho۔ ص 26–۔ ISBN:978-81-87746-47-8; Al-Laithy, Ahmed (2005)۔ What Everyone Should Know About the Qur'an۔ Garant۔ ص 61–۔ ISBN:978-90-441-1774-5
  11. Nasr، Seyyed (2005)۔ Mecca, The Blessed, Medina, The Radiant: The Holiest Cities of Islam۔ Aperture۔ ISBN:0-89381-752-X
  12. Peters، Francis E. (1994)۔ The Hajj: The Muslim Pilgrimage to Mecca and the Holy Places۔ Princeton University Press۔ ص 206۔ ISBN:978-0-691-02619-0
  13. Esposito، John L. (2011)۔ What everyone needs to know about Islam۔ Oxford University Press۔ ص 25۔ ISBN:978-0-19-979413-3۔ Mecca, like Medina, is closed to non-Muslims
  14. "Mayor of Makkah Receives Malaysian Consul General"۔ Ministry of Foreign Affairs Malaysia۔ 28 مئی 2015۔ مورخہ 2015-09-04 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-07-28
  15. Dan Stone (3 October 2014)۔ "The Growing Pains of the Ancient Hajj"۔ National Geographic۔ 17 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اپریل 2015 
  16. "Who's Who: Saleh Al-Turki, the new mayor of Makkah"۔ 29 جنوری 2022
  17. "Prince Khalid Al Faisal appointed as governor of Makkah region"۔ Saudi Press Agency۔ 16 مئی 2007۔ مورخہ 2007-12-30 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-01-01
  18. "Weather averages for Mecca"۔ PME۔ مورخہ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-08-17