سورہ الطور
قرآن مجید کی 52 ویں سورت جس میں 2 رکوع اور 49 آیات ہیں۔
سورة الطور Sūrat al-Ṭūr سورت الطور | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
دیگر نام (انگریزی) | The Mountain, Mount Sinai |
عددِ پارہ | 27 واں پارہ |
اعداد و شمار | 2 رکوع, 49 آیات, 312 الفاظ, 1324 حروف |
نام
پہلے ہی لفظ والطور سے ماخوذ ہے۔
زمانہ نزول
مضامین کی اندرونی شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی مکہ معظمہ کے اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورہ ذاریات نازل ہوئی تھی۔ اس کو پڑھتے ہوئے یہ تو ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی،مگر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ظلم و ستم کی چکی زور و شور سے چلنی شروع ہو گئی تھی۔
موضوع و مباحث
اس کے پہلے رکوع کا موضوع آخرت ہے۔ سورہ ذاریات میں اس کے امکان اور وجوب اور وقوع کے دلائل دیے جاچکے تھے، اس لیے یہاں ان کا اعادہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ یقیناً واقع ہو کر رہے گی اور کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اسے برپا ہونے سے روک دے۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آئے گی تو اس کے جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوگا اور اسے مان کر تقویٰ کی روش اختیار کرنے والے کس طرح اللہ کے انعامات سے سرفراز ہوں گے۔ اس کے بعد دوسرے رکوع میں سرداران قریش کے اس رویے پر تنقید کی گئی ہے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے۔ وہ آپ کو کبھی کاہن، کبھی مجنون اور کبھی شاعر قرار دے کر عوام الناس کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے تاکہ لوگ آپ کے لائے ہوئے پیغام کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہ دیں۔ وہ آپ کی ذات کو اپنے حق میں بلائے ناگہانی سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ کوئی آفت ان پر نازل ہو جائے تو ہمارا ان سے پیچھا چھوٹے۔ وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ یہ قرآن آپ خود گھڑ گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کر رہے ہیں اور یہ معاذ اللہ ایک فریب ہے جو آپ نے بنا رکھا ہے۔ وہ بار بار طنز کرتے تھے کہ خدا کو نبوت کے لیے ملے بھی تو بس یہ صاحب ملے۔ وہ آپ کی دعوت و تبلیغ سے ایسی بیزاری کا اظہار کرتے تھے جیسے آپ کچھ مانگنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنی جان چھڑانے کے لیے آپ سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ وہ آپس میں بیٹھ بیٹھ کر سوچتے تھے کہ آپ کے خلاف کیا ایسی چال چلی جائے جس سے آپ کی اس دعوت کا خاتمہ ہو جائے اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے انھیں اس امر کا کوئی احساس نہ تھا کہ وہ کیسے جاہلانہ عقائد میں مبتلا ہیں جن کی تاریکی سے لوگوں کو نکالنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالکل بے غرضانہ اپنی جان کھپا رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے اسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے پے در پے کچھ سوالات کیے ہیں جن میں سے ہر سوال یا تو ان کے کسی اعتراض کا جواب ہے یا ان کی کسی جہالت پر تبصرہ۔ پھر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو آپ کی نبوت کا قائل کرنے کے لیے کوئی معجزہ دکھانا قطعی لا حاصل ہے، کیونکہ یہ ایسے ہٹ دھرم لوگ ہیں کہ انھیں خواہ کچھ بھی دکھا دیا جائے، یہ اس کی کوئی تاویل کر کے ایمان لانے سے گریز کر جائیں گے۔ اس رکوع کے آغاز میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان مخالفین و معاندین کے الزامات و اعتراضات کی پروا کیے بغیر اپنی دعوت و تذکیر کا کام مسلسل جاری رکھیں اور آخر میں بھی آپ کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ صبر کے ساتھ ان مزاحمتوں کا مقابلہ کیے چلے جائیں یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کا فیصلہ آ جائے۔ اس کے ساتھ آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو دشمنانِ حق کے مقابلے میں اٹھا کر اپنے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ وہ برابر آپ کی نگہبانی کر رہا ہے۔ جب تک اس کے فیصلے کی گھڑی آئے، آپ سب کچھ برداشت کرتے رہیں اور اپنے رب کی حمد و تسبیح سے وہ قوت حاصل کرتے رہیں جو ایسے حالات میں اللہ کا کام کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔