سورہ القلم مکی سورۃ ہے لیکن اِس کی آیات 17 تا 33 مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں۔

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ وَلَا يَسْتَثْنُونَ فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ فَتَنَادَوا مُصْبِحِينَ أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ وَغَدَوْا عَلَى حَرْدٍ قَادِرِينَ فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ عَسَى رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ كَذَلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترمیم

17: بے شک ہم نے انھیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انھوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اُس باغ کے پھل اُتار لیں گے O 

18: اور اِن شاء اللہ نہ کہا O 

19:  پس اِس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے O 

20:  پس وہ باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی O 

21:  اب صبح ہوتے ہی انھوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں O  

22:  کہ اگر تمھیں پھل اُتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو O 

23:  پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے O  

24:  کہ آج کے دن کوئی مسکین تمھارے پاس نہ آنے پائے O  

25: اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پاگئے O

26: جب انھوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے O  

27:  نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی O  

28:  اُن سب میں جو بہتر تھا، اُس نے کہا کہ میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے؟ O  

29:  تو سب کہنے لگے : ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہم ہی ظالم تھے O 

30:  پھر وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے آپس میں  ملامت کرنے لگے O   

31:  کہنے لگے : ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے O  

32:  کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اِس سے بہتر بدلہ دے دے، ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں O  

33: یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے، کاش انھیں سمجھ ہوتی O

حوالہ جات ترمیم