سورہ القلم

قرآن مجید کی 68 ویں سورت
(القلم سے رجوع مکرر)
   سورہ القلم   
ترتیب نزول 68
تعداد آیات 52
تعداد الفاظ 301
تعداد حروف 1258
الجزء {{{جزء}}}
الحزب {{{حزب}}}
دور نزول مکی سورہ
ویکی ماخذ پر سورہ سورہ القلم کا متن
رسم عثمانی میں سورت
باب القرآن الكريم

قرآن مجید کی 68 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 52 آیات ہیں۔

متن

بسم الله الرحمن الرحيم   ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ   مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ  وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ  وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ  فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ  بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ  إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ  فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ  وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ  وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ     هَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِيمٍ   مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ  عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ  أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ  إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ  سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ  إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ  وَلَا يَسْتَثْنُونَ  فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ  فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ     فَتَنَادَوا مُصْبِحِينَ   أَنِ اغْدُوا عَلَى حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ  فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ  أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ  وَغَدَوْا عَلَى حَرْدٍ قَادِرِينَ  فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ  بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ  قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ  قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ  فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ     قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ   عَسَى رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ  كَذَلِكَ الْعَذَابُ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ  إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ  أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ  مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ  أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ  إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا يَتَخَيَّرُونَ  أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ  سَلْهُم أَيُّهُم بِذَلِكَ زَعِيمٌ     أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِن كَانُوا صَادِقِينَ   يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ  خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ  فَذَرْنِي وَمَن يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ  وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ  أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ  أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ  فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ  لَوْلَا أَن تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِّن رَّبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاء وَهُوَ مَذْمُومٌ  فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ     وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ   وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ   ۔[1]

نام

 
استاد خلیق ٹونکی کے قلم سے نون والقلم و مایسطرون

اس کا نام سورۂ ن بھی ہے اور القلم بھی۔ دونوں الفاظ سورت کے آغاز ہی میں موجود ہیں۔

زمانۂ نزول یہ بھی مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر اس کے مضمون سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی۔

موضوع اور مضمون

اس میں تین مضامین بیان ہوئے ہیں۔ مخالفین کے اعتراضات کا جواب ان کو تنبیہ اور نصیحت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو صبر و استقامت کی تلقین۔

آغاز کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ارشاد ہوا ہے کہ یہ کفار تم کو دیوانہ کہتے ہیں، حالانکہ جو کتاب تم پیش کر رہے ہو اور اخلاق کے جس اعلٰی مرتبے پر تم فائز ہو وہ خود ان کے اس جھوٹ کی تردید کے لیے کافی ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب سب ہی دیکھ لیں گے کہ دیوانہ کون تھا اور فرزانہ کون۔ لہٰذا مخالفت کا جو طوفان تمھارے خلاف اٹھایا جا رہا ہے اس کا دباؤ ہرگز قبول نہ کرو۔ دراصل یہ ساری باتیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ تم کسی نہ کسی طرح دب کر ان سے مصالحت (compromise) کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

پھر عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے نام لیے بغیر مخالفین میں سے ایک نمایاں شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے جسے اہل مکہ خوب جانتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق بھی سب کے سامنے تھے اور ہر دیکھنے والا یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ آپ کی مخالفت میں مکہ کے جو سردار پیش پیش ہیں ان میں کس سیرت و کردار کے لوگ شامل ہیں۔

اس کے بعد آیت 17 سے 33 تک ایک باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے جنھوں نے اللہ سے نعمت پاکر اس کی ناشکری کی اور ان کے اندر جو شخص سب سے بہتر تھا اس کی نصیحت بروقت نہ مانی، آخرکار وہ اس نعمت سے محروم ہو گئے اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب ان کا سب کچھ برباد ہو چکا تھا۔ یہ مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے تم بھی اسی آزمائش میں پڑ گئے ہو جس میں وہ باغ والے تھے۔ اگر ان کی بات نہ مانوں گے تو دنیا میں بھی عذاب بھگتو گے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔

پھر آیت 34 سے 47 تک مسلسل کفار کو فہمائش کی گئی ہے جس میں کہیں تو خطاب براہِ راست ان سے ہے اور کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل تنبیہ ان کو کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آخرت کی بھلائی لازماً انہی لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالٰی کے ہاں فرمانبرداروں کا انجام وہ ہو جو مجرموں کا ہونا چاہیے۔ کفار کی یہ غلط فہمی قطعی بے بنیاد ہے کہ خدا ان کے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جو وہ خود اپنے لیے تجویز کرتے ہیں، حالانکہ اس کے لیے انھیں کوئی ضمانت حاصل نہیں ہے۔ جن لوگوں کو دنیا میں خدا کے آگے جھکنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور وہ اس سے انکار کرتے ہیں، قیامت کے روز وہ سجدہ کرنا چاہیں گے تو بھی نہ کر سکیں گے اور ذلت کا انجام انھیں دیکھنا پڑے گا۔ قرآن کو جھٹلا کر وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ انھیں جو ڈھیل دی جا رہی ہے اس سے وہ دھوکے میں پڑ گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس تکذیب کے باوجود جب ان پر عذاب نہیں آ رہا ہے تو وہ صحیح راستے پر ہیں، حالانکہ وہ بے خبری میں ہلاکت کی راہ پرچلے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس رسول کی مخالفت کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک بے غرض مبلغ ہے، اپنی ذات کے لیے ان سے کچھ نہیں مانگ رہا ہے اور وہ یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتے کہ انھیں اس کے رسول نہ ہونے اور اس کی باتوں کے غلط ہونے کا علم حاصل ہے۔

آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فیصلہ آنے تک جو سختیاں بھی تبلیغِ دین کی راہ میں پیش آئیں ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائیں اور اس بے صبری سے بچیں جو یونس علیہ السلام کے لیے ابتلا کا موجب بنی تھی۔

حوالہ جات

  1. القرآن الكريم - سورة القلم۔