سورہ الماعون

قرآن کا 107 واں سورہ
(الماعون سے رجوع مکرر)
الماعون
اعداد و شمار
عددِ سورت107
عددِ پارہ30
تعداد آیات7
گذشتہقریش
آئندہالکوثر

ترجمہ اشرف علی تھانوی

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

  • کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے۔ (1)
  • سو اگر آپ اس شخص کا حال سننا چاہیں تو سنیے کہ وہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ (2)
  • اور محتاج کو کھانا دینے کی (دوسروں کو بھی) ترغیب نہیں دیتا۔ (3)
  • (سو اس سے ثابت ہوا کہ) ایسے نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے۔ (4)
  • جو اپنی نماز کوبھلا بیٹھتے ہیں (یعنی ترک کر دیتے ہیں)۔ (5)
  • جو ایسے ہیں کہ (جب نماز پڑھتے ہیں تو) ریاکاری کرتے ہیں۔ (6)
  • اور زکوٰة بالکل نہیں دیتے۔ (7)

ترجمہ احمد علی

شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

  • کیا آپ نے اس کو دیکھا جو روزِ جرا کو جھٹلاتا ہے (1)
  • پس وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (2)
  • اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (3)
  • پس ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے (4)
  • جو اپنی نماز سے غافل ہیں (5)
  • جو دکھلاوا کرتے ہیں (6)
  • اور برتنے کی چیز تک روکتے ہیں (7)

ترجمہ جالندھری

  • شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
  • بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟ (1)
  • یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (2)
  • اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لیے( لوگوں کو) ترغیب نہیں دیتا (3)
  • تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے (4)
  • جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں (5)
  • جو ریا کاری کرتے ہیں (6)
  • اور برتنے کی چیزیں عاریتہً نہیں دیتے (7)

نام

مزید دیکھیے : الماعون آیت 1 تا 3

آخری آیت کے آخری لفظ الماعون کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا۔ زمانۂ نزول ابن مردویہ نے ابن عباس اور ابن الزبیر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور یہی قول عطاء اور جابر کا بھی ہے۔ لیکن ابو حیان نے البحر المحیط میں ابن عباس اور قتادہ اور ضحاک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کے اندر ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جو اس کے مدنی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس میں اُن نماز پڑھنے والوں کو تباہی کی وعید سنائی گئی ہے جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے اور دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ منافقین کی یہ قسم مدینے میں ہی پائی جاتی تھی،کیونکہ وہیں اسلام اور اہل اسلام کو یہ قوت حاصل ہوئي تھی کہ بہت سے لوگوں کو مصلحتاً ایمان لانا پڑا تھا اور وہ مجبوراً مسجد میں آتے تھے، جماعت میں شریک ہوتے تھے اور دکھاوے کی نمازیں پڑھتے تھے تاکہ انھیں مسلمانوں میں شمار کیا جائے اس کے برعکس مکے میں ایسے حالات سرے سے موجود ہی نہ تھے کہ وہاں کسی کو دکھاوے کی نماز پڑھنا پڑتی۔ وہاں تو اہل ایمان کے لیے نماز باجماعت کا اہتمام بھی مشکل تھا۔ ان کو چھپ چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی اور کوئی علانیہ پڑھتا تھا تو جان پر کھیل کر پڑھتا تھا۔ منافقین کی جو قسم وہائی پائی جاتی تھی وہ ریاکارانہ ایمان لانے اور دکھاوے کی نمازیں پڑھنے والوں کی نہیں، بلکہ ان لوگوں کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برسر حق ہونے کو جان اور مان گئے تھے، مگر ان میں سے کوئی اپنی ریاست و وجاہت وار مشیخت کو برقرار رکھنے کی خاطر اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہا تھا اور کوئی یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھا کہ مسلمان ہو کر ان مصائب میں مبتلا ہو جائے جن میں وہ ایمان لانے والوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مبتلا ہوتے دیکھ رہا تھا۔ مکی دور کے منافقین کی یہ حالت سورۂ عنکبوت آیات 10 – 11 میں بیان کی گئی ہے۔ موضوع اور مضمون اس کا موضوع یہ بتانا ہے کہ آخرت پر ایمان نہ لانا انسان کے اندر کس قسم کے اخلاق پیدا کرتا ہے۔ آیت 2 اور 3 میں ان کفار کی حالت بیان کی گئی ہے جو علانیہ آخرت کو جھٹلاتے ہیں اور آخری چار آیتوں میں ان منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمان ہیں مگر دل میں آحرت اور اس کی جزا و سزا اور اس کے ثواب و عِقاب کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ مجموعی طور پر دونوں قسم کے گروہوں کے طرزِ عمل کو بیان کرنے سے مقصود یہ حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کرنا ہے کہ انسان کے اندر ایک مضبوط اور مستحکم پاکیزہ کردار عقیدۂ آخرت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔